
سر منڈاتے ہی اولے پڑے-عمران خان کی وزارت عظمی کی تقریب حلف برداری خطرے میں-
الیکشن کے دو دن بعد ہی نئے انتخاب کا مطالبے کی باز گشت سنائی دینے لگی ہے- کل جماعتی کانفرس نے 25 جولائی کے انتخابی نتیجہ کو مکمل طور پر مسترد کر دیا ہے اور اسے ملکی انتخابی تاریخ کا سب سے بڑا جھرلو قرار دے کر احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے-مولانا فضل الرحمن نے قومی اسمبلی میں حلف نہ اٹھانے کی بات کی ہے مگر پاکستان مسلم لیگ نون کے صدر جناب شہباز شریف نے اس کے لئے اپنے پارٹی رفقاء سے مشاورت کی مہلت مانگی ہے-ایم کیو ایم جو پی ٹی آئی کی دھاندلی کا سب سے زیادہ شکار ہوئی ہے وہ تذبذب کا شکار ہے- انھیں جہانگیر ترین نے کوئی دانہ پھینکا ہے-اس کے باوجود جناب فاروق ستار صاحب نے ذاتی طور پر اس کانفرنس میں شرکت کی ہے- پیپلز پارٹی آئی تو نہیں کی مگر کانفرس کے اعلامیہ سے اتفاق کیا ہے-کہا جا رہا ہے کہ انہیں دیر سے اطلاع ملی تھی اور یہ کہ اس دن انہوں نے کراچی میں اپنا ایک اجلاس بلا رکھا تھا-تحریک انصاف نے دعویٰ کیا ہے کہ وفاق میں اسے حکومت بنانے کےلئے پیپلز پارٹی کا تعاون درکار نہیں ہوگا- مگر شنید ہے کہ پیپلز پارٹی سے تحریک انصاف کے بالواسطہ رابطے نہ صرف موجود ہیں بلکہ سرگرم بھی ہیں فی الوقت پیپلز پارٹی کا مطمح نظرسندھ کی صوبائی حکومت پراپنی گرفت مضبوط کرنا ہے – اب کم و بیش یہ طے ہوگیا ہے کہ آئندہ برسوں کے لئے پیپلز پارٹی کا محور ومرکز سندھ اور صوبائی حکومت ہونگے – بظاہر یہی وجہ نظر آ رہی ہے کہ سانجھا دکھ ہونے کے باوجود وہ احتجاج کےلئے پاکستان مسلم لیگ نون کے پہلو میں بیٹھنے سے کنی کترا رہی ہے- 2013 کے عام انتخابات کے بعد جب پاکستان مسلم لیگ نون کو وفاق میں حددرجہ موثر تائید حاصل ہوگئی تھی تو اس کے سربراہ نوازشریف نے اصولی فیصلہ کیا تھا کہ صوبوں میں جن پارلیمانی گروپس کو سب سے بڑے گروپ ہونے کی حیثیت حاصل ہےانہیں حکومت سازی کا موقع دیاجائے اس اصول کے تحت خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کو حکومت بنانے کا نہ صرف موقع دیا گیا بلکہ بعض سہولتیں بھی فراہم کی گئیں حالانکہ صوبے میں تحریک انصاف کواکثریت حاصل نہیں تھی جمعیت العلمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کی جمعیت العلمائے اسلام صوبے کی دوسری بڑی جماعت تھی مولانا نے نوازشریف سے بار بار استدعا کی کہ انہیں صوبے میں حکومت بنانے کا موقع دیا جائے جس میں پاکستان مسلم لیگ نون کو کلیدی کردار حاصل ہوگا- نواز شریف اس کے لئے آمادہ نہ ہوئے اسی طرح انہوں نے بلوچستان میں اپنی پارٹی کا سب سے بڑا پارلیمانی گروپ ہونے کے باوجود قوم پرستوں کی قیادت میں صوبائی حکومت قائم کرنے کا موقع دیا تاکہ ان کی تالیف قلبی ہوسکے- نوازشریف نےآزاد کشمیر میں پیپلز پارٹی کی حکومت کو بھی اپنی میعاد پوراکرنے کا بھی موقع دیا گیا اور اسی طرح گلگت بلتستان میں بھی پیپلز پارٹی کی حکومت کو بھی معیاد پوری ہونے تک کام کرنے دیا گیا-سندھ میں پیپلزپارٹی سے کوئی تعرض نہیں کیااوراس کی حکومت چلنے دی گئی – اسی اصول کے تحت اب پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ نون کی حکومت بننا چاہیے جوصوبے کی سب سے بڑی پارلیمانی پارٹی ہے- مگر اصول سے روگردانی کرتے ہوئے تحریک انصاف پنجاب میں اپنی حکومت بنائے کی خواہاں ہے چاہے اس کے لئے اسے کوئی بھی قیمت ادا کرنا پڑے – بظاہر نظر یہ آ رہا ہے کہ تحریک انصاف وفاق میں حکومت بنانے کے لئے جس قدر سنجیدہ ہے اس سے کہیں بڑھ کر وہ پنجاب میں اپنی حکومت قائم کرنے کےلئے ہاتھ پاؤں کو مار رہی ہے – کہا جا رہا ہے کہ اس مقصد کوپورا کرنے کےلئے تمام گھوڑوں کو میدان میں اتار دیاگیاہے – تحریک انصاف کے حلقے اصرار کررہے ہیں کہ ان کا اقتدار اورحکومت، پنجاب کی حکومت پر غلبہ حاصل کئے بغیر پورا نہیں ہوتا – قرائن بتاتے ہیں کہ اگر پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ نون کواس کے جمہوری استحقاق سے محروم کرتے ہوئے صوبائی حکومت تشکیل دینے میں رخنہ اندازی کی گئی تو پھر دمادم مست قلندر ہوگا اور وہ سیاسی استحکام اورسکون جس کی وطن عزیز کو شدت سے ضرورت ہے پورا نہیں ہو سکے گا – تحریک انصاف کے بلوگڑوں کو شاید کچھ غلط فہمی ہے اور انہیں شاید مولانا فضل الرحمٰن کی جمعیت العلمائے اسلام کو مزاحمت اورٹکرا جانے کی طاقت اور صلاحیت کا عشر عشیر کا بھی پتہ نہیں ہے- ظلم و جبر اور نا انصافی سے نبر وآزما ہو جانے کی قوت انہیں ورثے میں ملی ہے اور اسلام کے یہ مجاہد بلا خوف و خطر کود پڑتے ہیں اور اب جب جماعت اسلامی بھی اس کے ہمقدم ہے – جمعیت کی سامراج شکن قوت نے پہلے 1968 میں ایوب خان اورپھر 1974میں بھٹو کے خلاف تحریک چلا کر انہیں کیفر کردار تک پہنچایا ہوا ہے – اس لئے انتخابات 2018 کے خلاف قومی سطح کی تحریک کوروکنا تحریک انصاف کے بلوگڑوں کے بس سے باہر کی بات ہوگی اور اگر انہوں نے عقل کے ناخن نہ لئے تو تلنگےخان کے وزارت عظمی کا تاج سر پر سجانے کے سپنے بکھر جانے کا خطرہ ہے-
الطاف چودھری
28.07.2018
Leave a Reply