
کچ شہر دے لوک وی ظالم سن -کچ سانوں مرن دا شوق وی سی – نواز شریف اور مریم نواز کی وطن واپسی-
نا تو پاکستان کے ایک منتخب وزیر اعظم کی سزا نئی ہے اور نا ہی ملک کی کینگرو عدالتوں میں بونے جج نئے ہیں – انہوں نے تو بھٹو جیسے شخص کو بھی بے گناہ سولی پر چڑھا دیا تھا اور بعد میں خود ہی اعتراف بھی کر لیا تھا کہ بھٹو کے جوڈیشنل مرڈر کے لئے ان پر فوجی جرنیلوں کا دباؤ تھا- اگر ملک کی سب سے بڑی عدالت کا فل بنچ دباؤ میں آ کر کسی بے گناہ تو تختہ دار پر لٹکا سکتا ہے تو جج محمد بشیر کی کیا اوقات ہے- ایک وقت آئے گا جب بھٹو کے قاتل ججوں کو شہر کے چوراہے میں لٹکایا جائے گا- ملٹری جرنیلوں کے کرتوت بھی نئے نہیں ہیں اور نا ہی ایک سیاسی مخالف کو سزا ہونے پر مٹھائیاں بانٹنے کی روایات نئی ہے-عمران خان اور شیخ رشیدجیسے ابن الوقت ہر موسم میں پائے جاتے ہیں- کل کوئی جج محمد بشیر ان کے لئے بھی لانچ کیا جا سکتا ہے-یہ ملک کی بدقسمتی ہےکہ یہاں کوئی محب وطن نہیں ہے ہر کوئی اپنا الو سیدھا کرنا چاہتا ہے -عمران خان کا ایک ہی منشور ہے ” مجھے وزیر اعظم بنا دو ” باقی سب جائے بھاڑ میں-اس آدمی کا کوئی ویزن نہیں ہے اور نا ہی اسے سیاست کی ابجد کا پتہ ہے-اسے یورپ اور امریکہ کی صیہونی لابی نے پاکستان میں ہنودی اور صیہونی ایجنڈے کی تکمیل کے لئے لانچ کیا ہے اور اسے وزیر اعظم بنانے کے لئے پیسہ پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے-ملکی اور یورپی امریکی میڈیا دن رات اس کی تعریفوں کے قلابے ملا رہا ہے اور یہ کہ اتراتا پھرتا ہے اور اپنے مخالفین کے خلاف اپنی گندی زبان کا بے دریغ استعمال کر رہا ہے- یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ پہلی دفعہ کسی طاقتور کا احتساب ہوا ہے – جنکے پاس طاقت ہے اُنکا احتساب تو آج تک ہوا ہی نہیں احتساب تو صرف سیاستدانوں کا ہوتا ہے جنہیں اقتدار دے دیا جاتا ہے اختیار نہیں دیا جاتا – قیام پاکستان کے فوراً بعد سندھ کے گورنر غلام حسین ہدایت اللہ اور وزیر اعلی ایوب کھوڑو کے درمیان اختلافات پیدا ہو نے پر قائد اعظمؒ کی منظوری سے 26اپریل 1948ء کو گورنر نے وزیراعلیٰ کھوڑو کو اُن کے عہدے سے برطرف کر دیا اور اُن پر کرپشن کے مقدمات قائم کر دیئے تھے- جسٹس عبدالرشید اور جسٹس شہاب الدین پر مشتمل ایک خصوصی عدالت بنائی گئی جس نے ایوب کھوڑو کو تین سال کیلئے نااہل قرار دیدیا- کچھ عرصہ کے بعد 14جنوری 1949ء کو وزیر اعظم لیاقت علی خان پروڈا کا قانون لائے اور انہوں نے پنجاب کے وزیر اعلیٰ افتخار ممدوٹ سمیت کئی سیاستدانوں پر اس قانون کی تلوار چلا دی – اس دوران ایوب کھوڑو کو سندھ ہائی کورٹ نے بحال کر دیا اور دوبارہ وزیر اعلیٰ بننے کے بعد اُنہوں نے بھی پروڈا کا خوب استعمال کیا۔ کھوڑو نے وہی غلطی کی جو گورنر غلام حسین ہدایت اللہ اور وزیر اعظم لیاقت علی خان نے کی اور اس طرح پاکستان کی سیاست میں احتساب کے نام پر سیاسی انتقام لینے کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا جو آج تک جاری ہے اور معلوم نہیں ہے کہ اور کتنے عرصہ تک جاری رہے گا- نوازشریف اورمریم نواز کے 13 جولائی کووطن واپسی کےفیصلے سےمسلم لیگ کےکارکنان کونئی امیدملے گی اور انہیں حوصلہ ملے گا- احتساب عدالت کےفیصلے کے مطابق انہیں 10 اور 7 سال کاسامناکرناپڑےگا- اس فیصلےکی ممکنہ وجہ یہ ہے کہ انتخابات 2018 میں فتح کی امید اسی فیصلے سے وابستہ ہے- اگر یہ اس وقت نہیں آتے تو مرکز تو کیا مسلم لیگ نون پنجاب میں بھی حکومت نہی بنا سکےگی- اپنی واپسی کے فیصلے سے وہ ایک ’سیاسی جوا‘کھیلنا چاہتے ہیں کیونکہ وہ جانتےہیں کہ ان کیلئےیہ ’اب نہیں توکبھی نہیں‘ والی بات ہےاور ان کی سیاست میں واپسی کافیصلہ اگرنہ ہوتاتوان کےمخالفین اورعمران خان کی زیرقیادت ان کےمخالف بیانیےکو’آسان فتح‘ مل جاتی، جن کا خیال ہے کہ نواز شریف اب آؤٹ ہوچکےہیں اور نون لیگ ختم ہو چکی ہے- عمران خان اور زرداری کوان کی واپسی کایقین نہیں ہے- ایک کہہ رہا ہے کہ اب لندن ان کا حقیقی گھر ہے تو دوسراکہہ رہا ہے کہ انھوں نےلندن میں سیاسی پناہ لے لی ہے – چند لوگوں کو ابھی تک ان کی واپسی کا یقین نہیں ہےاور کہا جا رہا ہے کہ آخری منٹ میں بھی پلان تبدیل ہوسکتاہے- 10 سال اڈیالہ جیل میں گزارنے مشکل ہیں-مگر دوسری طرف سیاسی موت ہے-اگر نواز شریف جمعہ کو نہیں آتے تو 25 جولائی کو اسلام آباد ہیِ نہیں لاہور پشاور میں بھی تلنگوں کا راج ہو گا اور عمران خان اس وقت تک شیروانیاں سلواتا رہے گا جب تک خلائی مخلوق کو اس جیسا کوئی اور کمی کمین نہیں مل جاتا-نواز شریف کو اپنے لئے نہیں تو ملک پر ہنودی اور صیہونی گماشتوں کی یلغار کو روکنے کے لئے آنا پڑے گا-ملک کو تلنگوں اور غنڈوں کے رحم و کرم پر چھوڑا نہیں جا سکتا-
الطاف چودھری
09.07.2018
Leave a Reply