یوم معرکہ بدر

یوم معرکہ بدر

غزوہ بدر کفر اور اسلام کے درمیان پہلا فیصلہ کن اورتاریخ ساز معرکہ ہے- یہ عشق ہے اللہ کے دین سے عشق-اللہ کے محبوب حضرت محمدﷺ پر جان و مال نچھاور کرنے کا عشق-اس دن 313 نھتے مسلمان 1000 سے زیادہ جنگی ساز و سامان سے لیس دین کی بقا کے لئے دین دشمنوں سے ٹکرا گے اور اسلام کی عظمت اور عشق رسول ﷺ کا نشان بن گئے- ﻋﺸﻖ ﻭﺳﯿﻊ، ﮨﻤﮧ ﮔﯿﺮ ﺍﻭﺭ ﻻ ﻣﺘﻨﺎﮨﯽ ﺍﻧﺴﺎﻧﯽ ﺟﺬﺑﻮﮞ ﮐﯽ ﭘﺮﻭﺍﺯ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺑﻘﺎ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺍﯾﮏ ﺳﻔﺮ ﮨﮯ ﺍﺳﯽ ﻣﯿﮟ ﺭﻣﺰ ﺗﺨﻠﯿﻖ ﺍﻧﺴﺎﻧﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﮯ ﺍﺷﺮﻑ ﺍﻟﻤﺨﻠﻮﻗﺎﺕ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﺎ ﺭﺍﺯ ﭘﻨﮩﺎﮞ ﮨﮯ ﯾﮩﯽ ﻭﮦ ﮐﯿﻔﯿﺖ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﻮ ﺗﻤﺎﻡ ﻭﺍﺑﺴﺘﮕﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﮐﺎﭦ ﮐﺮ ﺍﯾﮏ ﺳﮯ ﻣﺘﺼﻞ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺍﺭﺗﮑﺎﺯ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﺣﺎﻟﺖ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ۔ ﯾﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﮐﮧ ﺗﻤﺎﻡ ﻣﺎﺩﯼ ﮐﺎﺋﻨﺎﺕ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﮨﯿﭻ ﮨﻮﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ،ﮔﻮﯾﺎ ﺍﯾﮏ ﻋﺎﺷﻖ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﯾﮩﯽ ﮐﯿﻔﯿﺖ ﻣﺎﺩﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯽ ﻓﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﺳﯿﻊ ﺗﺮ ﺭﻭﺣﺎﻧﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﮯ ﺁﻏﺎﺯ ﺳﮯ ﻋﺒﺎﺭﺕ ﮨﮯ ۔ ﺟﺐ ﻋﺸﻖ ﮐﯽ ﮐﯿﻔﯿﺎﺕ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﭘﮭﻮﭦ ﭘﮍﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻣﺎﺩﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺻﻮﺭِ ﺍﺳﺮﺍﻓﯿﻞ ﺑﻦ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ – ﻋﺸﻖ ﮐﯽ ﺑﺮﮐﺖ ﺳﮯ ﻋﺎﺷﻖ ﮐﻮ ﺑﮯ ﭘﻨﺎﮦ ﻗﻮﺕ ﺣﺎﺻﻞ ﮨﻮﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ، ﻭﮦ ﺍﺑﻮﺍﻟﻮﻗﺖ ﺍﻭﺭ ﺍﺑﻮ ﺍﻟﺤﺎﻝ ﺑﻦ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ، ﺍﻧﻔﺲ ﻭﺍﻓﺎﻕ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺯﯾﺮﻧﮕﯿﮟ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺟﻦ ﻭ ﻣﻼﺋﮑﮧ ﮐﻮ ﺻﯿﺪ ﺯﺑﻮﮞ ﺳﻤﺠﮭﻨﮯ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ- ﮐﺎﺭ ﺯﺍﺭ ﺣﯿﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﻋﺸﻖ ﮨﯽ ﻧﻘﺶِ ﺳﻠﯿﻤﺎﻧﯽ ﮐﺎ ﻗﺎﺋﻢ ﻣﻘﺎﻡ ﮨﮯ-غزوہ بدر اپنے اندر بے شمار روشن سبق اور عبرت و عظمت کے بے شمار پہلو پنہاں کئے ہوئے ہے- اگر رضائے الٰہی حاصل اور شامل ہو تو اسلحہ اور تعداد کوئی معنی نہیں رکھتے- اسلام میں رشتےصرف خون سے نہیں بنتے بلکہ دین سےبھی بنتے ہیں- جو خونی رشتوں سے زیادہ موثر،پائیدار اور مضبوط ہوتےہیں مسلمانوں میں اگر شوق شہادت زندہ اور روشن ہوتو انہیں کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی، غرور اور شرک بالآخر خاک میں ملتا اور رسوا ہوتا ہے- اگر دلوں میں کامل ایمان ہو،دین پر مرمٹنے کاسچاجذبہ ہو اوراللہ پربھرپورتوکل ہوتوباطل کی بڑی سے بڑی طاقت کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے، عددی اکثریت اور مادی وسائل کی کمی کے باوجود اہل ایمان ہرمحاذ پر کامیاب اور بامرام ہوسکتے ہیں – جو لوگ معجزات اور غیبی مدد کے بارے میں شکوک میں مبتلا رہتے ہیں ، انہیں غزو بدر کی تفصیلات کو غور سے پڑھنا چاہئے- مختصریہ کہ بدر کی فتح نے اسلامی حکومت کی بنیاد رکھ دی اور پھر اس کے بعد اسلام کرۂ ارض پر اس قدر تیزی سے پھیلا کہ تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی-

فضائے بدر پیدا کر، فرشتے تیری نصرت کو

اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی

الطاف چودھری
02.06.2018

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*