زہریلا پانی

زہریلا پانی

‎پاکستان کا بڑا مسئلہ،سالانہ 53ہزار بچے بیمار ہو کر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں، یونیسیف

‎اسلام آباد( اے ایف پی )اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسیف) نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں دو تہائی سے زائد گھرانے آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں اور ہر سال تقریباً 53 ہزار پاکستانی بچے آلودہ پانی کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں جبکہ ٹائیفائڈ، ہیضہ، پیچش اور ہیپاٹائٹس کے کیسز تیزی سے سامنے آرہے ہیں، ملک بھر میں 30سے 40فیصد اموات کا سبب بھی مضر صحت پانی ہی بن رہا ہے، ادھر لاہور کے زیر استعمال دریائے راوی بھی فیکٹریوں کے فضلہ سے آلودہ ہونے لگا ہے، ماہرین کا کہناہےکہ 2025تک پانی کا بحران سنگین ہونے کا امکان ہے،بلند و بالا گلیشیئرز اور مون سون کاپانی ذخیرہ کرنے کیلئے صرف 3بڑے اسٹوریج بیسن موجود ہیں، افسوس پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلی سیاسی ایجنڈے کا حصہ نہیں ہوتی۔ غیر ملکی خبررساں ادارے کی رپورٹ میں اقوام متحدہ اور پاکستانی حکام کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں 30 سے 40 فیصد اموات آلودہ پانی پینے کی وجہ سے ہوتی ہیں،ورلڈ بینک نے 2012میں اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ آلودہ پانی کی وجہ سے پاکستان کو معاشی نقصان بھی ہورہا ہے اور سالانہ 5.7ارب ڈالر یا (مجموعی قومی پیداوار کا 4فیصد) آلودہ پانی کی وجہ سے ہونے والی بیماریوں کے علاج پر خرچ ہورہے ہیں۔اسلام آباد میں پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے وائس چانسلر جاوید اکرم نے بھی پانی کو پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا ہے۔ادھرپاکستان کے دوسرے سب سے بڑے شہر لاہور میں بھی فراہمی آب کی صورتحال انتہائی ناقص ہے، دریائے راوی جو شہر کے تقریباً ایک کروڑ سے زائد شہریوں کو پانی فراہم کرتا ہے اسے مقامی فیکٹریاں آلودہ کررہی ہیں۔دریائے راوی میں پائی جانے والی مچھلیاں مقامی افراد بطور غذا استعمال کرتے ہیں لیکن ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کے پروجیکٹ آفیسر سہیل علی نقوی کہتے ہیں کہ بعض رپورٹس اس طرف اشارہ کرتی ہیں کہ دریائے راوی کی مچھلیوں کی ہڈیوں میں دھاتوں کی بھاری آمیزش پائی گئی ہے۔ماہر ماحولیات احمد رافع عالم کہتے ہیں کہ دریائے راوی کا پانی ملحقہ علاقوں کی فصلوں کو سیراب کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے لیکن دریا کا پانی خود آلودہ ہے اور اس میں مختلف جراثیم موجود ہوتے ہیں۔قابل تسلسل ڈویلپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے محقق عمران خالد کہتے ہیں کہ پاکستان میں فراہمی آب کے انفرااسٹرکچر کی عدم موجودگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، یہاں ماحولیاتی تبدیلی سیاسی ایجنڈے کا حصہ نہیں ہوتی، جن لوگوں کی قوت خرید ہے وہ پانی کی بوتلیں خرید لیتے ہیں لیکن جو لوگ خریدنے کی سکت نہیں رکھتے وہ کیا کریں؟میگا سٹی کراچی جس کی آبادی تقریباً 2 کروڑ تک ہوسکتی ہے، یہاں مقامی سطح پر فراہمی آب کا مؤثر نظام نہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہونے والے خلاء کو ٹینکر مافیا نے پُر کیا ہے۔

(From Daily Jang..09.01.2018)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*