سی پیک اور ملکی خارجہ پالیسی

وطن کی باتیں… جرمنی سے
23 جولائی 2017
Goettingen, Germany
ahussai@t-online.de
Tel:-00491707929561

سی پیک اور ملکی خارجہ پالیسی

پاکستان کے معرض وجود میں آتے ہی اسکا جھکاؤ امریکہ کی طرف رہا ہے-یہ کہنا غلط ہے کہ پاکستان امریکہ کا دوست رہا ہے کیونکہ دوستی صرف برابری کی بنیاد پر ہی ہوتی ہے-پاکستان سیٹو اور سینٹو کا ممبر بنا حالانکہ سیٹو میں دو ایشیائی ممالک فلپائن اور تھائی لینڈ کے علاوہ کوئی ایشیا ملک شامل نہیں تھا-سیٹو میں امریکہ برطانیہ ایران عراق ترکی مصر شامل تھے اور اس میں جنوبی ایشیا کا کوئی بھی ملک شامل نہیں تھا- افغانستان کی جنگ میں پاکستان نے نیٹو فورسس کا بھرپور ساتھ دیا اور کیمونزم کی یلغار روکنے میں آہنی دیوار ثابت ہوا- دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی بے انتہا قربانیوں کو بھی اب فراموش کر دیا گیا ہے اور پاکستان کے چین کے ساتھ تعلقات کو شک کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے- چین پاکستان کا ہمسایہ ملک ہے اور سیاسی اور معاشی طور پر ہمیشہ پاکستان کامددگار رہا ہے- سی پیک منصوبہ پاکستان کی معاشی ترقی کی ضمانت ہے جو امریکہ اور جنوبی
ایشیا میں اس کے حواریوں کی آنکھ میں ٹھٹک رہا ہے- اب جب کہ پاکستان امریکہ پر اپنے انحصار کو کم کرنا چاہتا ہے جو امریکہ کو پسند ہے وہ تو پاکستان کو ہمیشہ اپنا دست نگر رکھنا چاہ رہا ہے اس لۓ اس کی پوری کوشش ہے کہ سی پیک کو بنیادیں پکڑنے سے پہلے ہی بے عمل بنا دیا جاۓ- اس لۓ ہمارے خارجہ پالیسی کے معماروں کو امریکہ سے دور ہونے اور چائنا سے تعلقات استوار کرنے میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے- کسی بھی صورت میں جانبداری کا مظاہرہ نہیں ہونا چاہۓ اور ہر حال میں سی پیک منصوبہ پائہہ تکمیل تک پہنچنا چاہۓ- امریکہ سمیت علاقے کے کئی ممالک جیسے بھارت افغانستان ایران کسی صورت میں اس منصوبے کے حق میں نہیں ہیں- اس سے امریکہ کی علاقے میں بالا دستی مجروح ہوتی ہے بھارت پاکستان کا ازلی دشمن ہے اور وہ نہیں چاہتا کہ پاکستان کبھی بھی معاشی طور پر خود کفیل ہو-افغان حکومت کی ملک میں رٹ ختم ہو چکی ہے اور کابل کے کچھ حصوں میں ہی اس کا عمل دخل ہے- باقی سارا ملک پر طالبان کی علمبرداری میں ہے- اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ بیرونی قوتوں کے ایجنٹ ہیں اور یہ سب کچھ ان ہی کے
اشاروں پر کرتے ہیں- اور مستقبل قریب میں افغانستان میں امن قائم ہونے کے امکانات معدوم ہیں- نیٹو فورسس کی افغانستان میں موجودگی اور انڈین را اور افغانی انٹیلیجنس ایجنسیوں سے اور پاکستان دھرنا گروپوں اور مغربی طاقتوں کے گماشتوں سے خبردار رہنے کی ضرورت ہے-

الطاف چودھری

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*