امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی کے درمیان حالیہ ملاقات کے بعد کشیدگی میں اضافہ ہو گیا ہے، جہاں ٹرمپ نے زیلنسکی کو “بغیر انتخابات کے آمر” قرار دیتے ہوئے الزام لگایا کہ انہوں نے امریکہ کو 350 ارب ڈالر خرچ کرنے پر مجبور کیا، جبکہ زیلنسکی نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے ٹرمپ پر روسی پروپیگنڈہ دہرانے کا الزام عائد کیا۔ ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ زیلنسکی کی مقبولیت کم ہو رہی ہے اور وہ انتخابات سے گریز کر رہے ہیں، جبکہ زیلنسکی نے تنقید کی کہ روس اور امریکہ کے درمیان ریاض میں ہونے والے مذاکرات میں یوکرین کو شامل نہیں کیا گیا، جسے انہوں نے روس کو سفارتی تنہائی سے نکالنے کی کوشش قرار دیا۔ اس تنازعے کا پس منظر 2019 میں جاتا ہے، جب ٹرمپ نے زیلنسکی پر جو بائیڈن کے خلاف تحقیقات کے لیے دباؤ ڈالا تھا، جبکہ حالیہ تناؤ اس وقت بڑھا جب ٹرمپ نے یوکرین کو جنگ شروع کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ اس کشیدگی پر یورپی رہنماؤں نے تشویش کا اظہار کیا ہے، جرمن چانسلر اولاف شولز نے زیلنسکی کی جمہوری حیثیت پر سوال اٹھانے کو غلط اور خطرناک قرار دیا، جبکہ برطانوی وزیراعظم کیئر سٹارمر نے زیلنسکی کو فون کر کے اپنی حمایت کا یقین دلایا۔ یہ واضح نہیں کہ اس تنازعے کا امن مذاکرات پر کیا اثر پڑے گا، تاہم یورپی رہنما صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں-
الطاف چودھری
28.02.2025

Leave a Reply