ملک میں افراتفری ہے – نہ کسی کو آئین کا پاس ہے اور نہ ہی قانون کا – طاقتور لوگ دونوں ہاتھوں سے ملکی وسائل سمیٹ رہے ہیں اور غریب کو دال روٹی بھی میسر نہیں ہے- ملک کے اہم ادارے اپنے اصل مقاصد اور ذمہ داریوں سے دور ہو کر ذاتی اور سیاسی مفادات کی تکمیل کا ذریعہ بن گئے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے، جن پر عوام کے جان و مال کی حفاظت اور جرائم کی روک تھام کی ذمہ داری ہے، خود کرپشن، رشوت اور سیاسی دباؤ کا شکار ہیں۔پسند نا پسند اور اقربا پروری نے اداروں کے فیصلوں اور ان کے افسران کی تعیناتیوں میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس کے نتیجے میں نااہل اور کرپٹ افسران اہم ریاستی مناصب پر تعینات ہوتے ہیں جو اپنی سیاسی وابستگیوں کے تحت کام کرتے ہیں۔ اس مسئلے کی بنیاد اس وقت پڑی جب افسران نے ریاست کی بجائے سیاسی جماعتوں کے مفادات کا تحفظ کرنا شروع کیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ میرٹ کا نظام ختم ہوگیا اور ادارے غیر فعال ہوگئے – پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں میں کرپشن اور رشوت کا جو کلچر فروغ پایا ہے، اس نے نہ صرف ان اداروں کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے بلکہ عوام کا اعتماد بھی متزلزل کر دیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ عوام کو انصاف اور تحفظ کے بجائے مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ عام شہری رشوت دینے پر مجبور ہیں تاکہ ان کا جائز کام بھی وقت پر ہوسکے۔یہ صورت حال انتظامی بحران کی علامت ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں احتساب کا نظام، قانون کی حکمرانی، اور میرٹ کی بنیاد پر تقرریاں قائم کرنے کے لیے مؤثر اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔ اداروں میں کرپشن کے خاتمے اور پروفیشنل ازم کے فروغ کے بغیر ریاستی نظام کی اصلاح ممکن نہیں۔ جب تک سیاسی اثر و رسوخ اور اقربا پروری کا خاتمہ نہیں ہوتا اور ادارے میرٹ پر کام کرنے کے پابند نہیں ہوتے، تب تک ملک میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہونے کی امید کم ہے۔اللہ وطن عزیز کو اپنے حفظ و امان میں رکھے اور دوست نما دشمنوں سے بچائے-آمین
الطاف چودھری
13.11.2024
Leave a Reply