آئی ایم ایف نے پیش گوئی کی ہے کہ رواں مالی سال کے دوران پاکستان کا مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کا 7.6 فیصد رہے گا، جو وفاقی حکومت کے مقرر کردہ 6.5 فیصد ہدف سے تقریباً 1.1 فیصدزیادہ ہے-آئی ایم ایف کی جاری کردہ فسکل مانیٹر رپورٹ 2023 کے مطابق جاری اس سال پاکستان کا مالی خسارہ ہدف سے 1137 ارب زیادہ ہونے کا تخمینہ لگایا گیا ہے- رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سال 2024-23 میں 8042 ارب روپے تک پہنچ جائے گا جب کہ حکومت نے مالی خسارے کا ہدف 6905 ارب روپے مقرر کر رکھا ہے-اربوں روپے کے خسارے کا شکار ان حکومتی اداروں میں پاکستان ریلوے، نیشنل ہائی وے اتھارٹی، پی آئی اے، پاکستان سٹیل مل اور بجلی بنانے والی کمپنیاں سرِفہرست ہیں، جنھیں فعال رکھنے کے لیے حکومت پاکستان کو ہر سال اربوں روپے قومی خزانے سے ادا کرنا پڑتے ہیں-تاہم دوسری جانب حکومتی تحویل میں ہی چلنے والے تیل و گیس اور بینکاری جیسے شعبے بھی ہیں جو سالانہ کئی سو ارب کا نفع کماتے ہیں-سوال یہ ہے کہ ایک ہی حکومت کے زیرِ انتظام چلنے والے چند ادارے اربوں روپے منافع جبکہ دیگر اربوں روپے خسارے میں کیوں ہیں ؟ اور وہ کیا مشترک عوامل ہیں جو کسی حکومتی ادارے کو نفع بخش یا نقصان والا ادارہ بناتے ہیں؟ گذشتہ مالی سال میں کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی کا خسارہ 76 ارب روپے رہا ہے- اسی طرح مالی سال 2022 میں پاکستان ریلوے کا خسارہ 48 ارب جبکہ این ایچ اے کا خسارہ 45 ارب روپے رہا ہے-معاشی امور کے ماہرین کے مطابق ستر کی دہائی کے آخر تک پاکستان ریلوے ایک منافع بخش ادارہ تھا کیونکہ یہ کارگو کے شعبے میں بہت زیادہ کام کرتا تھا تاہم اس کے بعد سارا کارگو بزنس نجی اداروں کو منتقل ہو گیا-ملکی معیشتدانوں کے مطابق خسارہ کرنے والے ان سارے اداروں میں ایک چیز تو یہ مشترکہ ہے کہ یہ حکومتی ادارے ہیں- یہ ایک حقیقت ہے کہ ان اداروں میں ہر دور حکومت میں سیاسی بنیادوں پر بھرتیاں ہوئیں اور وقت کے ساتھ ان اداروں کا گورننس ماڈل بہتر نہیں کیا گیا- پی آئی اے ایک مسافر طیارے پر پاکستان میں 600 سے 700 افراد پر مشتمل عملہ ہے جو دنیا کی کسی بھی منافع بخش ائیرلائن کے لیے مطلوبہ عملے کی تعداد سے کہیں زیادہ ہے-حکومتی اداروں میں او جی ڈی سی ایل، پی پی ایل اور نیشنل بینک تین سب سے زیادہ منافع کمانے والے ادارے ہیں-او جی ڈی سی ایل کی جانب سے ظاہر کیے گئے مالیاتی نتائج کے مطابق مالی سال 2022 میں اس ادارے کا منافع 133 ارب روپے رہا-اسی دورانیے میں پی پی ایل کا منافع 54 ارب روپے جبکہ نیشنل بینک کا منافع 30 ارب روپے رہا-اگرچہ او جی ڈی سی ایل کسی نہ کسی حد تک منافع کما رہا ہے مگر اگر ان اداروں کی کارکردگی کو دیکھا جائے تو یہ قابل رشک نہیں کیونکہ ان کی جانب سے تیل و گیس کی دریافت کے شعبے میں کوئی قابل ذکر کارکردگی نظر نہیں آتی-اسی طرح پی پی ایل بھی تیل و گیس کے شعبے کا ادارہ ہے اور اس کے زیادہ منافع کے پس پردہ بھی ڈالر میں ادائیگی کا عنصر ہے-نیشنل بینک کے منافع کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ملک کا بینکاری کا شعبہ کافی عرصے سے منافع بخش ہے اور نیشنل بینک بھی اس کا حصہ ہے-ملک میں سود کی بلند شرح کی وجہ سے نیشنل بینک کی انٹرسٹ انکم کافی بڑھی ہے اور اسی طرح اس کے نان انٹرسٹ انکم میں بھی کافی اضافہ دیکھا گیا ہے-اسطرح ملک کے دوسرے بینکوں کی طرح نیشنل بینک نے بھی ایکسچینچ ریٹ میں بہت زیادہ اتار چڑھاؤ سے کافی منافع کمایا ہے جس کی وجہ ان کی فارن کرنسی اکاونٹ میں زیادہ کمائی تھی-ضرورت اس امر کی ہے کہ ملکی وسائل اور اخراجات میں توازن پیدا کیا جائے-پی آی اے ، ریلوے یا سٹیل ملز کے مالیاتی خسارے کو بہانہ بنا کر انہیں اونے پونے داموں اپنے من پسند افراد کے حوالے نہ کیا جائے-کہا جا رہا ہے کہ پی آئی اے کو ملک کے ایک صنعتکار میاں محمد منشا کی بہو کو بیچا جا رہا ہے جس پر وزیرِ نجکاری فواد حسن فواد اور عبوری وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر بڑی دل جمعی سے کام کر رہے ہیں-اس سے پہلے بھی میاں محمد منشا کو مسلم کمرشل بنک مفت میں دیا گیا تھا جو کہ بدقسمتی سے مسلم لیگ کے دور حکومت میں ہوا تھا-اب پی آئی اے میاں منشا کی بہو اقراءمنشا کو جناب فواد حسن فواد کی سفارشات سے بخشے جانے کی افواہیں ہیں-کہتے ہیں کہ میاں منشا کی یہ بہو پاکستان کی سب سے امیر ترین خاتون ہیں اور ان کے مجموعی اثاثوں کی مالیت کئی ارب ڈالرز سے زیادہ ہے-اقراءمنشا میاں منشا کے بیٹے عمر منشا کی اہلیہ ہیں -اللہ میرے ملک کو لٹیروں سے بچائے-آمین
الطاف چودھری
17.11.2023



Leave a Reply