ڈنگ ٹپاؤ صدر جناب عارف علوی صاحب

ڈنگ ٹپاؤ صدر جناب عارف علوی صاحب

پڑوسی ملک میں نگران یا کیئر ٹیکر حکومت کو ’’ڈنگ ٹپاؤ‘‘ سرکار کہا جاتا ہے-اس طرح آئندہ ہفتے سے صدر پاکستان جناب عارف علوی صاحب ڈنگ ٹپاؤ / نگران صدر کی حیثیت اختیار کر لیں گے -انہیں اہم قومی معاملات میں محدود کردار کا پابند بنادیا جائے گا- اس طرح پاکستان میں پہلی مرتبہ صدر اور وزیراعظم نگران حیثیت کے حامل ہوں گے تاہم ایوان صدر کے ذرائع کا کہنا ہے کہ صدر عارف علوی نے اپنے حوالے سے تجاویز پر کوئی فوری ردعمل ظاہر نہیں کیا ،حددرجہ قابل اعتماد ذرائع نے بتایا ہے کہ صدر مملکت پر واضح کردیا گیا ہے کہ وہ قومی معاملات صرف اس وقت کوئی کردار ادا کریں گے- جب ان کے لئے اس کی انجام دہی اشد ضروری ہو گی اور اس کی نشاندہی وفاقی حکومت کرے گی ازروئے آئین صدر مملکت اپنے منصب پر اس وقت تک برقرار رہ سکتے ہیں-جب تک ان کی جگہ نئے صدر کا چنائو عمل میں نہیں آجاتا- ملک کے مخصوص حالات میں صدر عارف علوی سے ان کی آئینی مدت پورا ہونے کے بعد کیا جائے گا- وہ ایسے موقعہ پر جب ملک عام انتخابات کی جانب بڑھ رہا ہے اور نگران وفاقی حکومت سختی کے ساتھ غیر جانبدارانہ طور پر نیا کردار ادا کرتے ہوئے خدمات انجام دے رہی ہے- ملک کی معاشی مشکلات بہت زیادہ بڑھ چکی ہیں اور ملک کو سیاسی استحکام کی شدید ترین ضرورت ہے- بطور صدر مملکت ان کے بارے میں یہ تاثر عام رہا ہےکہ وہ اپنی سیاسی وابستگیوں کے دائرے سے کبھی باہر نہیں نکل سکے اور انہوں نے تحریک انصاف کادمساز ہوتے ہوئے ہر وہ قدم اٹھایا جس سے اس جماعت کے جائز و ناجائز مقاصد پورے ہوئے- ان حالات میں صدر مملکت سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنا کردار مکمل غیر جانبداری اور دیانتداری سے انجام دے گا۔ ذرائع کے مطابق صدر عارف علوی سے ان کی میعاد پورا ہونے کے فوری بعد دریافت کیا جائے گا۔ وہ ملک میں آئندہ انتخابات کے نظام الاوقات کا اعلان ہونے سے کتنے دن پہلے اپنی ذمہ داریوں سے دستکش ہو سکتے ہیں۔ قومی اسمبلی کی عدم موجودگی کے باعث صدر کے خلاف مواخذے کی تحریک منظور نہیں ہو سکتی اسی طرح صوبائی اسمبلیاں موجود نہ ہونے سے صدر مملکت کا حلقہ انتخاب ہی عدم موجود ہو گیا ہے- ان حالات میں آئین کی بعض دفعات کا سہارا لیکر صدر مملکت کے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی صلاحیتوں کے بارے میں سوال اٹھایا جا سکتاہے- ذرائع کا کہنا ہے کہ صدر کو مشورہ دیا جائے گا کہ وہ ایسی تادیبی کارروائی سے پہلے رضا کارانہ طور پر باوقار انداز میں مستعفی ہو جائیں اور ریٹائرمنٹ کی زندگی گزاریں اگر ایسا نہ ہوا تو پھر صدر کے حوالے سے کئی اقدامات ان کی صدارت سے سبکدوشی کے بعد عمل میں لائی جاسکیں گی تحریک انصاف کے رہنما صدر عارف علوی سے بکثرت ملتے رہتے ہیں اور یہ سلسلہ بدستور جاری ہے جبکہ کم و بیش دیگر تمام سیاسی جماعتیں عارف علوی سے کوئی رابطہ راہ و رسم نہیں رکھتیں۔ جس سے بطور صدر ان کے کردار کے بارے میں شدید تحفظات کا اظہار ہو رہا ہے-
منقول جنگ – محمد صالح ظافر/خصوصی تجزیہ نگار)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*