
وطن کی باتیں… جرمنی سے
09 مئی 2017
Goettingen, Germany
ahussai@t-online.de
Tel:-00491707929561
پاکستان کی ناکام افغان خارجہ پالیسی
پاکستان کی چالیس سال کی جانی اور مالی قربانیاں رائیگاں ہوتی نظر آ رہیں ہیں- افغانستان کے ساتھ قیام پاکستان سے ہی تعلقات کبھی بھی اچھے نہیں رہے اور اس سے نہ صرف بھارت کے ساتھ ہماری مشرقی سرحد بلکہ افغانستان کے ساتھ ہماری مغربی سرحد بھی محفوظ نہیں ہے- صرف طالبان کے دور میں ہمارے تعلقات افغانیوں سے کچھ بہتر رہے اور ہم انھیں اپنا اثاثہ سمجھنے لگے تھے- مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ طالبان نے بھی ہمیں استعمال کیا اور ہم ان کے نخرے اٹھاتے رہے-
افغان پالیسی کے کرتا دھرتا جنرل ضیاالحق جنرل اختر اور جنرل حمید گل کو گردانا جاتا ہے- جنرل ضیاالحق نے روسی فوج کو بے سروسامانی کی حالت میں روکا اور اپنے سارے وسائل کسی کی بیگانی جنگ میں جھونک دۓ- اس کے پیچھے ان کی اسلامی جہادی سوچ اور جزبہ تھا- وہ اس نظریہ کے تحت اس وقت کی ایک سپر پاور سے ٹکرا گۓ اور اپنے مقصد میں بڑی حد تک کامیاب بھی ہوۓ- جنرل اختر اور جنرل حمید گل اسں جہادی فلسفہ کے پیروکار تھے-
روسی افواج کے انخلا کے بعد بات کو سیاسی طور پر سمبھالنا مشکل ہو گیا اور ضیاالحق اور جنرل اختر 1988 میں بہاولپور میں ایک طیارے کے حادثہ میں مارے گۓ یا مار دۓ گۓ- 30 سال گزرنے کے باوجود ابھی تک پتہ نہیں لگ سکا کہ یہ ایک حادثہ تھا یا تخریب کاری تھی- 9/11 کے واقعہ کے بعد جب طالبان کی حکومت کے بعد علاقے میں امریکن فوجیں داخل ہوئیں تو شمالی اتحاد کا عمل دخل زیادہ ہو گیا جنکا جھکاؤ ہمیشہ ہی سے ہندوستان کی طرف ہے- حامد کرزائی اور اشرف غنی جیسے لوگ بھی امریکن ٹوڈی نکلے اور اپنے ملک کے مفادات کا خیال رکھنے کی بجاۓ ہندوستان اور امریکہ کی چاپلوسی کو اپنا شعار بناۓ رہے- ان کی حکومت صرف کابل تک ہی محدود ہے وہاں بھی طالبان جب چاہیں کاروائی کر جاتے ہیں – دو تہائی سے زیادہ علاقوں پر طالبان کا قبضہ ہے اور اس وقت کے افغانی صدر اشرف غنی کی علمداری صرف صدارتی محل تک ہے- ملکی اخراجات امریکن پوری کرتے ہیں اور ہندوستان نے بھی وہاں اچھی خاصی سرمایہ کاری کر رکھی ہے جس کے عوض ہندوستان افغانیوں کو پاکستان کے خلاف اس کے مذموم مقاصد کے حصول کے لۓ استعمال کرتا ہے- جسکا ادراک افغان سیاست دانوں کو نہیں ہے-
امریکن چین اور ایران پر یہاں نظر رکھے ہوۓ ہیں اور ہندوستان یہاں بیٹھ کر پاکستان کو زک کر رہا ہے- اور جب تک ان دونوں ممالک کی فوجیں وہاں موجود ہیں علاقے میں امن قائم نہیں ہو سکتا –
چمن کے بارڈر پر حالیہ سانحہ جس میں
افغانستان کی طرف سے فائرنگ سے 9 پاکستانی شہری شہید اور 19 زخمی ہوۓ افغانستان میں تعیانات ہندوستانی کمانڈوز کی ریشہ دوانی ہے- پاکستان نے جوابی کاروائی کرکے 50 افغانی فوجیوں کو مار دیا ہے اور کاروائی میں 80 سے زیادہ سپاہی زخمی ہوۓ ہیں – پاکستانی دفاعی اداروں نے اس واقعہ پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے اور افغانستان کو تنبیہہ کی ہے کہ وہ اپنی گھناؤنی حرکتوں سے باز رہے اور یہ ایک پاکستان اپنی سرحد کا دفاع خوب جانتا ہے-
ضرورت افغان پالیسی کو نۓ تقاضوں کے مطابق استوارکرنے کی ہے- افغانستان میں امن خطے میں امن کی ضمانت ہے – ہمیں دو طرفہ گفت و شنید سے افغانستان کے شکوک و شبہات دور کرنے کی کوشش کرنی چاہۓ- اور افغانستان کے لۓ دفاعی معاشی معاشرتی اور تعلیمی غیر سگالی پالیسیوں کا اعلان کرنا چاہے جو پاک افغان تعلقات میں موثر ثابت ہو سکتی ہیں-
الطاف چوہدری
Leave a Reply