پاکستان کے حکمران

وطن کی باتیں… جرمنی س
07 مئی 2017
Goettingen, Germany
ahussai@t-online.de
Tel:-00491707929561

پاکستان کے حکمران

پاکستان کو سیاست دانوں اور جرنیلوں نے مل کر لوٹا-پاکستان کی 70 سالہ سیاسی تاریخ میں 30 سال فوج ملک پر مسلط رہی- 1948میں قائد اعظم کی رحلت کے بعد ملک کی عنان حکومت ان لوگوں کےہاتھ میں آگئی جو نظریہ پاکستان ہی سے لا بلد تھے-

قائد اعظم کی وفات کے بعد خواجہ ناظم الدین گورنر جنرل بنے جو ایک بنگالی تھے ایک دفعہ انھوں نے ایک صحافی کے سوال کے جواب میں کہا کہ وہ نہیں جانتے کہ پاکستان کیوں بنا ہے-انھوں نے ہی نوابزادہ لیاقت علی خان کی وفات کے بعد وزارت عظمی کا قلمدان سنبھالا- لیاقت علی خان کا دلی میں جو گھر تھا وہ انھوں نے حکوت پاکستان کو دے دیا جہاں پاکستانی سفارت خانہ بنایا گیا-ان کی بیگم رعنا لیاقت علی کو ہالینڈ کی ملکہ نے ایک مکان تحفے میں دیا جو انھوں نے حکومت پاکستان کو دے دیا- یہ لوگ روشنی کے مینار تھے اور یہ نظریہ پاکستان کو سمجھتے تھے اور اس کے رکھوالے تھے-

ملک غلام محمد پاکستان کے تیسرے گورنر جنرل تھے جو ایک بیوروکریٹ تھے جو بیمار تھے- اسے سعودی عرب کے فرمانروا شاھ ابن سعود نے ایک رولس رائس تحفہ میں دی تھی جو یہ گھر لے گۓ اور آخری وقت تک حکومت پاکستان کو کو نہیں دی حالانکہ سرکاری عہدیداروں کو ملنے والے تحائف حکومت کی ملکیت ہوتے ہیں –

فیروز خان نون ملک کے وزیر اعظم بنے انھوں نے گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے میں ایک کلیدی کردار ادا کیا- چوہدری محمد علی بھی ایک بیوروکریٹ تھے انھوں نے ملک کو 1953 کا آئین دیا-محمد علی بوگرا ایک بنگالی تھے وہ جواہر لال نہرو کو بڑا بھائی کہتے تھے ان کا خیال تھا کہ وہ اپنے اخلاق اور تابعداری کے رویے سے نہرو کو مسئلہ کشمیر کے حل پر آمادہ کر لینگے- جو کہ ان کی خام خیالی تھی- ہندو نے کبھی بھی پاکستان کو تہہ دل سے قبول نہیں کیا اور وہ ہمیشہ ہی سے نظریہ پاکستان کے مخالف ہیں اکر نہرو نے مسئلہ کشمیر کو حل کرنا ہوتا تو وہ دھوکے اور فریب دہی سے اپنی فوجیں کشمیر میں کیوں اتارتا- پھر 1958 میں سکندر مرزا نے ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا- یہ میر جعفر سے خاندان سے تھا جس نے پلاسی کی جنگ میں نواب سراج الدولہ سے غداری کی تھی – اکتوبر 1958 میں ایوب خان کی مارشل لاء لگی اور اس نے سکندر مرزا کو ملک بدر کر دیا اور خود فیلڈ مارشل بن بیٹھا-ایوب خان کو زمینیں بنانے کا بہت شوق تھا اس نے بہت دولت بنائی اور اس کے بیٹوں نے گندھارا انڈسڑی قائم کی-اس نے ملک پر دس سال تک حکومت کی اور جانے کے بعد اس نے عنان حکومت اس وقت کے چیف آف سٹاف یحی خان کے سپرد کر دی – جسکی پے درپے غلطیوں سے سقوط ڈھاکہ کا المیہ رونما ہوا اور پاکستان دو لخت ہو گیا- یحی خان جاتے وقت حکومت ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے کر گۓ اور دنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ انھیں ایک سولین سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بننے کا اعزاز حاصل ہوا-1977 میں بھٹو کے اپنے ہی تعین کۓ ہوۓ کمانڈر ان چیف جنرل محمد ضیاالحق نے اس کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور بعد میں اسے پھانسی لگا دیا- ضیاالحق 11 سال تک حکومت پر براجمان رہا اور 1988 میں طیارے کے حادثے میں مارا گیا جسکا ابھی تک پتہ نہیں چل سکا کہ اس تخریب کاری میں کس کا ہاتھ تھا- ضیاالحق کی وفات کے بعد غلام اسحاق خان ملک کے صدر بنے جو اس وفت سینٹ کے چئرمین تھے – 1988 کے الیکشن کے نتیجے میں محترمہ بے نظیر بھٹو ملک کی وزیر اعظم بنی مگر صدر اسحاق نے 1990 میں ان پر کرپشن کے الزامات لگا کہ ان کی حکومت ختم کر دی – بے نظیر نے صدر کے اس اقدام کو عدالت میں چیلنج کیا مگر دال نہ گلی- اور جب 1990 میں دوبارہ الیکشن ہوۓ تو میاں محمد نواز شریف ملک کے وزیر اعظم بنے جنہیں بھی 1993 میں اسحاق خان نے کرپشن کا الزام لکا کر فارغ کر دیا مگر ان کی حکومت کو عدالت نے بحال کر دیا- 1993 کے الیکشن کے نتیجہ میں بے نظیر دوسری دفعہ حکومت بنانے میں کامیاب ہوئیں تو وہ اسحاق خان کی جگہ پیپلز پارٹی کے فاروق لغاری ملک کے صدر تھے- جنہوں نے 1996 میں اختلافات کی بنیاد پر بے نظیر کی حکومت کو فارغ کر دیا- اس کے بعد 1997 میں الیکشن کے نتیجے میں دوبارہ نواز شریف کی حکومت بنی جسے جنرل مشرف نے جون 1999 میں مارشل لاء لگا کر فارغ کر دیا- مشرف کی وردی اتارنے کی بعد 2008 میں صدر زرداری کی قیادت میں پیپلز پارٹی کی حکومت بنی جس نے پاکستان کی سیاسی تاريخ میں پہلی بار اپنی آئینی مدت پوری کی – 2013 سے ملک میں نواز لیگ کی حکومت ہے پتہ نہیں یہ حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرے گی یا نہیں کیونکہ پاناما لیکس اور ڈان لیکس کی وجہ سے یہ بحران کا شکار ہے- کسی وقت بھی کچھ ہو سکتا ہے-

الطاف چوہدری

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*