اسلام میں عدل اجتماعی

اسلام میں عدل اجتماعی

اسلام کے عدلِ اجتماعی میں تقسیم دولت کی بنیاد استطاعت، صلاحیت اور ضرورت کو قرار دیا گیا ہے-اگر استطاعت رکھتا ہو لیکن سعی نہ کرے، صلاحیت رکھتا ہو لیکن اپنے اختیار کو استعمال نہ کرے، تو وہ اُس کے برابر نہیں ہو سکتا جو اپنی صلاحیت اور ذمہ داری کو عدل کے ساتھ ادا کر رہا ہو-عدل اجتماعی انسان کی حریت و آزادی پر زور دیتا ہے، یہ آزادی انسانی بنیادی حقوق مثلاً سیاست ، معیشت اور معاشرت کے دائرے میں بھی ہوگی اور سماجی رسوم و رواج کی اسیری سے بھی اسے نجات دے گی۔ غلامی ایک ایسی لعنت ہے کہ اگراس سے نجات مل بھی جائے تو عرصۂ دراز تک انسانی وجود سے بوئے غلامی نہیں جاتی۔ عدل کا قیام ایک ایسی صحیح فکر اور واضح ہدف ہے کہ اس کے ساتھ تمام انسانوں کا اشتراک عمل نہ صرف اللہ تعالیٰ کے منشاء کو پورا کرتا ہے بلکہ پوری قوم کے لیے بھی امن و سکون اور راحت و انبساط کاسامان مہیا کر دیتا ہے۔ قرآن حکیم میں اسی لیے تاکید کی گئی ہے: اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓى اَھْلِھَا ۙ وَاِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهٖ ۭ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ سَمِيْعًۢا بَصِيْرًا -(النسآء:58)-مسلمانو! بلا شبہ اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ جو امانتوں کے حقدار ہیں انہیں امانتیں ادا کرو جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کرو، اللہ یقینا اچھی نصیحت کرتا ہے اور وہ سب کچھ سننے والا اور دیکھنے والا ہے-اسی بات کو ایک اور مقام پر بڑے سخت الفاظ میں یوں فرمایا – وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَ (المآئدہ: 44) اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلہ نہ کریں تو وہی لوگ کافر ہیں”-
Copied…

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*