„سیاسی فیصلوں میں وقت کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو اگر 1977میں الیکشن میں دھاندلی کے الزام کے بعد الیکشن کرا دیتے تو شاید 5؍جولائی نہ ہوتا اور جنرل ضیاکو کسی دوسرے وقت کا انتظار کرنا پڑتا۔ بے نظیر بھٹو 1988 میں ایک مشروط حکومت نہ لیتیں تو زیادہ طاقتور وزیر اعظم بن کر آتیں۔ اسی طرح اگر 2016میں ’’پانامہ لیکس‘‘ کے فوراً بعد جس میں نواز شریف صاحب کے بچوں کے بھی نام آئے تھے وہ وزارت عظمیٰ سے استعفیٰ دے کر نئے انتخابات کرا دیتے تو آج وہ چوتھی بار وزیر اعظم ہوتے اور عمران خان کو کچھ برس انتظار کرنا پڑتا۔بدقسمتی سے سیاست میں جب آپ اقتدار میں ہوتے ہیں یا اقتدار کے قریب ہوتے ہیں تو صائب مشورے پسند نہیں آتے، تنقید ناگوار گزرتی ہے، درباری اچھے لگتے ہیں کیونکہ دربار میں رہنا اچھا لگتا ہے۔ اصول، نظریات، بیانیہ صرف اپوزیشن میں رہتے ہوئے اچھے لگتے ہیں۔ جماعت بھی یاد رہتی ہے اور کارکن بھی۔ یہ ہم بھول جاتے ہیں کہ آپ کا اصل دوست اور ساتھی وہی ہوتا ہے جو جیل میں آپ سے ملنے آتا ہے۔ سزا کے وقت ساتھ کھڑا رہتا ہے“

Copied

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*