
انتخاب یا معیشت
ملک کا مسئلہ انتخاب نہیں ہے بلکہ معیشت ہے جو بیٹھ گئی ہے-ملک کا خزانہ خالی ہے اور ملک پر بیرونی قرضوں کا 100 ارب ڈالر سے زیادہ کا بوجھ ہے-پاکستان کو بنے 75 سال ہوئے ہیں-جبکہ قرضہ 100 ارب ڈالر ہے- یعنی ہم ہر سال سوا ارب ڈالر سے زیادہ قرض لے کر ملک چلاتے رہے ہیں-حالانکہ ضیا اور مشرف کے دور میں تو ہم اپے فوجی مروا کر ڈھیروں ڈالر کماتے رہے ہیں-مشرف کے پاس اربوں ڈالروں کی دولت ہے وہ کہاں سے آئی ہے-اس شخص سے حساب کون لے گا-ڈالر آج مارکیٹ میں 190 روپئے کا ہے-افراط زر کی شرع 13, 14 فی صدی ہے-حکومت نے شرح سود بڑھا دی ہے اس سے بھی ڈالر کی اڑان نہیں رکی ہے-خدشہ ہے کہ ڈالر ایک آدھ ماہ میں 200 روپئے کا ہو جائے گا-ہمارا تجارتی خسارہ اس وقت 50 ارب ڈالر سے زیادہ ہے-ہم اپنی ایکسپورٹس کو نہیں بڑھا سکتےتو ہمیں اپنی امپورٹس کو کم از کم 20 یا 25 فی صدی کم کرنا ہو گا-حکومتی غیر ترقیاتی اخراجات بہت زیادہ ہے-ہم اپنے ٹوٹل سالانہ بجٹ کا 25 فی صدی صرف سرکاری ملازمین کی تنخواہوں پر خرچ کرتے ہیں جو کہ دنیا کے کسی ملک میں بھی نہیں ہوتا-ضرورت اس امر کی ہے کہ قیمتوں اور افراط زر کو قابو میں رکھنے کے لئے حکومت اپنے غیر ترقیاتی اخراجات میں کم از کم بیس فی صدی کمی کرے-سرکاری ملازمین کی بے تکی تنخواہیں بڑھا کر نئے نوٹ چھاپنے سے ملک نہیں چلتے-جو عقل کے اندھے اس وقت نئے الیکشن کے انعقاد کا مطالبہ کر رہے ہیں انھیں ملکی معاشی مسائل کا ادراک ہی نہیں ہے-خزانہ خالی ہے الیکشن پر تو پیسے خرچ ہوتے ہیں وہ کہاں سے آئینگے-
الطاف چودھری
11.05.2022
Leave a Reply