بھیانک موت

بھیانک موت

خلقت زخموں سے نڈھال ہے
بے بس مجبور اور لاچار ہے
بھوک ننگ اور افلاس ہے
روٹی کے ناغے ہیں
فاقے پے فاقے ہیں
یہ جو شہر کے امراء ہیں
رہزن میرے راہنما ہیں
فرعون کی اولاویں ہیں
ان کے قبضوں میں
قارون کی جائیدادیں ہیں
یہ سنگدل درندے ہیں
انسان نما بھیڑے ہیں
غریبوں بے بسوں کا خون
ان درندوں کے منہہ لگ گیا ہے
میری ہڈیاں نوچ لو
میرا سارا خون چوس لو
مجھے مار پیٹ لو
مگر کب تک؟
جب تم میری ہڈیاں توڑ دو گے
میرا سارا خون نچوڑ لو گے
میری جان تن سے جدا کر دو گے
سوچو!
پھر تم کس پر حکومت کرو گے
کس پر اپنے تازیاے برساؤ گے
کس کے زخموں کو داغوں گے
میں تو مر جاؤنگا
تمہیں بھی ایک دن مرنا ہے
مگر تمہاری موت میری موت سے
بھیانک ہو گی
تمہارے ظلم و جبر سے بھی
بہت بھیانک
کیونکہ اللہ کی لاٹھی
بے آواز ہوتی ہے

الطاف چودھری
12.04.2020

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*