یہ ملک ایک قید خانہ ہے

یہ ملک ایک قید خانہ ہے

میرا ملک ایک قید خانہ ہے
اور لوگ کیڑوں ، مکوڑوں
اور چوہوں کی طرح
اس قید خانے کی چار دیواریوں میں بند ہیں-
اس قید خانے کی دیواریں
اونچی گونگی اور بہری ہیں-
ان اونچی دیواروں سے نہ کوئی بات باہر جاتی ہے
اور نہ ہی کوئی فریاد-
یہاں بس قیدیوں کی سسکیاں ہیں
نالے ہیں اور آہ و بکا ہے-

مکروہ چہروں والے سرکاری سپاہی ہیں
جو بندوقیں لئے
شکاری کتوں کی طرح
ہر وقت میرا پیچھا کرتے ہیں
ان کی خون خار آنکھوں سے
مجھے ڈرتا لگتا ہے-
یہ نہ مجھے مرنے دیتے ہیں
اور نہ ہی جینے دیتے ہیں

قید خانے کی کال کوٹھری میں موٹے کیڑے ہیں
جو انسانی خون چوستے ہیں
رات کو جب میں ننگے فرش پر سونے کی کوشش کرتا ہوں
تو یہ مجھے کاٹتے ہیں اور سونے نہیں دیتے-

کل سے راشن بھی کم ہو گیا ہے
آٹا چینی بازار میں مہنگے ہو گئے ہیں-
کہا جا رہا ہے کہ
قید خانے کے
سرکاری افسروں نے آٹا اور چینی
سر حد پار بیچ دی ہے-
کہتے ہیں ان سرکاری افسروں کے بچے
مہنگے سکولوں میں پڑھتے ہیں
وہاں فیسوں کے لئے بہت پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے-اگر یہ ایسا نہ کرتے تو ان کے بچے
پڑھ نہیں سکتے
اور افسر نہیں بن پاتے
میرے بچے تو فضول ہیں
نہ پڑھ سکتے ہیں اور
نہ ہی افسر بن سکتے ہیں-

اس لئے
سرکار نے جیل میں
راشن بندی کر دی ہے
اب ایک روٹی کی بجائے آدھی روٹی
اور چائے چینی کے بغیر
پینے کو ملتی ہے
میں جب بھوک سے بلبلاتا ہوں
تو یہ مجھے جوتوں سے مارتے ہیں
شدت درد سے چلاتا ہوں تو یہ اور مارتے ہیں-
یہ مجھے اتنا مارتے ہیں کہ
میں چیختا چلاتا بے ہوش ہو جاتا ہوں
ہوش میں آتا ہوں تو یہ پھر مارتے ہیں

میں کیا کروں ؟
اگر میں پرندہ ہوتا تو یہاں سے دور
کسی اجنبی دیس میں اڑ جاتا
سنا ہے وہاں
سب کو بھوک میں دال روٹی
اور سردی گرمی کے کپڑے ملتے ہیں
تھانیدار سے تحفظ اور جج سے انصاف ملتا ہے اور معاشرے میں عزت و تکریم ملتی ہے –
مگر میں تو ایک انسان ہوں
میں مجبور ہوں
میں تو اڑ بھی نہیں سکتا ہوں-
مجھے اسی جیل کی مٹی میں
مرنا ہے-

الطاف چودھری
25.01.2020

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*