
عمران سرکار کا ایک سال-معیشت تباہ- قرضوں کے انبار- دوستوں نے منہ موڑ لئے-
عمران سرکار کا ایک سال مکمل ہو گیا ہے اور اور پکڑ دھکڑ کے سوا کیا کرایا کچھ بھی نہیں ہے-عوام مایوس ہیں-بھوک، بیروزگاری اور مہنگائی بڑھ گئی ہے، پٹرول، گیس اور ادویات کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے، روپے کی قیمت بہت زیادہ گری ہے، سونے کے نرخوں میں35 ہزار روپے فی تولے کا بلند ترین اضافہ ہوا ہے، چینی، آٹا، گھی، دالیں اور دیگر اشیا کے نرخ بھی غریب آدمی کی رسائی سے باہر ہو گئے ہیں-عمران خان نے سرکار بنانے سے پہلے جو وعدے کئے تھے وہ دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں-50 لاکھ مکانات اور ایک کروڑ نئی نوکریاں وعدے ہی ہیں-بالکل جیسے صوبہ پختونخواہ میں 300 ؤیم بنانے کے دعوے-یہ بات سچ ہے کہ عمران خان کو حکومت ملنے کا کوئی گمان بھی نہیں تھا اور اسے بس تیس پینتیس سیٹوں کے ملنے کی امید تھی اس لئے اس نے ہوم ورک نہیں کیا ہوا تھا-اسد عمر کو وزارت خزانہ سونپنا ایک حماقت تھی جس نے آئی ایم ایف کے قرض کے حصول میں بہت دیر کر دی-بغیر سوچے سمجھے روپئے کی قیمت میں یکے بعد دیگرے کمی کی جس کے نتیجے میں ڈالر 105 سے 160 کا ہو گیا اور ملکی کمزور معیشت مزید اربوں ڈالرز کے قرضوں کے بوجھ تلے دب گئی-غرض عمران سرکار کے گزشت ایک سال میں ملکی جی ڈی پی ، سٹاک مارکیٹ ، ملکی برآمدات ، محصولیات میں کمی آئی ہے اور کساد بازاری، قرضہ جات ، بے روزگاری اور شرح سود میں آضافہ ہوا ہے-خارجی محاذ پر امریکہ کے دباؤ میں سی پیک کو رول بیک کرکے چین جیسے ایک پرانے دوست کو ناراض کیا گیا ہے -بار بار چھوٹی چھوٹی خلیجی ریاستوں سے معمولی قرضوں کی بھیک مانگ کر ملکی وقار کو گزند پنچائی گئی جس کا نتئجہ یہ ہوا ہے کہ کشمیر کے مسئلہ پر کسی نے بھی بھارتی جارحیت کی مذمت نہیں کی ہے اور سعودی عرب جیسا ملک بھی خاموش ہے-اپوزیشن لیڈروں کو کرپشن کے الزام میں جیلوں میں ڈال تو دیا گیا ہے مگر کسی پر الزامات ابھی تک ثابت نہیں ہو سکے ہیں اور جوں جوں وقت گزرتا جاتا ہے عوام میں یہ تاثر زور پکڑتا جا رہا ہے کہ عمران سرکار ملک کے سابقہ صدور وزراء اعظم اور سابقہ سرکاری افسروں کی کردار کشی کر رہی ہے اور ان کی بہن بیٹیوں کی پکڑ دھکڑ کرکے انہیں بے عزت کر رہی ہے – اس لئے اب حکومت کو ملکی معیشت اور دوسرے ملکی آمور پر توجہ دینی چاہئے-تاکہ بھوک سے بلکتی اور بنیادی ضروریات سے محروم عوام کو سکھ کا سانس نصیب ہو-
الطاف چودھری
20.08.2019
Leave a Reply