
سیلیکٹڈ حکومت کا عوام دشمن بجٹ-ظالموں نے روٹی پر بھی 10 % سیل ٹیکس لگا دیا–
بجٹ آنے سے پہلے حکومتی حلقے چمچے کڑچھے بجٹ کے عوام دوست ہونے کے دعوے کر رہے تھے- اس لئے گمان تھا کہ بجٹ میں غریب عوام جسے دال روٹی کےلالے ہیں ریلیف ملے گا- مگر بجٹ میں چینی، گھی، تیل، دودھ، گوشت، مشروبات، سیمنٹ، سی این جی، آلو، پیاز پٹرول، بجلی سمیت متعدد اشیائے خورونوش پر ٹیکس کی شرح بڑھانے کی تجویز دی گئی ہے – ان اقدامات کے مجموعی اثرات کے نتیجے میں مہنگائی کے بوجھ تلے سسکتی ملک کی غریب عوام کا جینا محال ہوجائے گا-حکومت کو چاہیے تو یہ تھا کہ کم آمدنی والے طبقوں کو خصوصی مراعات دے کر مہنگائی کے عذاب سے محفوظ رکھنے کی کوشش کرتی اور کم از کم عوامی استعمال کی روزمرہ کی اشیاء مزید مہنگا کرنے سے قطعی گریز کرتی اور ٹیکسوں میں اضافے کو دولت مند طبقوں کے استعمال کے سازو سامان تک محدود رکھتی – مگر آٹا دال گھی چینی تیل چائے کی پتی سب کچھ مہنگا کر دیا گیا ہے-اور تو اور روٹی پر بھی 10 % سیل ٹیکس لگا دیا گیا ہے- بجٹ کا مجموعی تخمینہ 7036 ارب روپے ہے جبکہ ٹیکس وصولیوں کا تخمینہ 5550ارب روپے ہے جو پورا ہوتا مشکل ہی نہیں ناممکن نظر آ رہا ہے- اگر یہ ہدف حاصل نہ کیا جاسکا تو ملکی معیشت کو ڈوبنے سے بچانا مشکل ہو جائے گا- ملکی دفاعی بجٹ میں کوئی کمی یا آضافہ نہیں کیا گیا ہے اور پچھلے سال کی طرح 1152ارب روپے ہی ہے- محصولات کیلئے جی ڈی پی کا تناسب 12.6فیصد تک بڑھانے کا ہدف رکھا گیا ہے لیکن اس ہدف کو پورا کرنے کیلئے سخت محنت کرنا پڑے گی-خیال ہے کہ ہدف پورا کرنا مشکل ہے- ترقیاتی منصوبوں کیلئے تخمینہ 925ارب روپے کا ہے- خسارے کا تخمینہ 3151.2ارب روپے ہے جو ایک بھاری رقم ہے اگر ضروری معاشی اصلاحات نہ کی گئیں تو ملک کا خسارے کے اس بھنور سے نکلنا مشکل دکھائی دے رہا ہے – بجٹ کے مطابق قرضوں پر محض سود کی ادائیگی کیلئے 2891.4ارب روپے کی خطیر رقم مختص کی گئی ہے -قرضوں سے چھٹکارے کوئی کا لائحہ عمل نہیں دیا گیا ہے-انسانی ترقیاتی منصوبوں کے لئے 60ارب اور اعلیٰ تعلیم کیلئے 45ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جو کہ پچھلے سال سے کم ہیں – زراعت کیلئے 1200ارب روپے مختص کئے گئے ہیں – جو کہ کافی نہیں ہیں زراعت میں فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ اور پانی کے صحیح استعمال پر توجہ دینا بہت ضروری ہے – زرعی ریسرچ کو جدید بنیادوں پر استوار کرنا ملک کی ضرورت ہے-گریڈ ایک سے سولہ تک کے سرکاری ملازمین اور پنشن یافتگان کی تنخواہوں میں دس فیصد اضافہ اور کم از کم تنخواہ کا ساڑھے سترہ ہزار روپے مقرر کیا جانا حوصلہ افزاء ہے مگر روز افزوں مہنگائی کے مقابلے میں بہت کم ہے-کم آمدنی والے طبقے کو بھوک سے مرنے سے بچانے کے لئے ان کی تنخواہوں میں اور اضافہ ضروری ہے -ملک میں ٹیکس وصولیوں کے طریقہ کار کو بہتر بنانا ضروری ہے- ملک کے امر اء جاگیرداروں اور سرمایہ کاروں سے ٹیکس کی وصولی ایک کٹھن کام ضرور ہے مگر نا ممکن نہیں ہے- حکومت اپنے ٹیکس وصول کرنے والے کارندوں کی کارکردگی بہتر بنائے- ٹیکس دینے والے حکومت کو ٹیکس دینے کی بجائے بددیانت راشی افسروں اور کارندوں کی جیبیں گرم کرتے ہیں اور اسطرح ملکی خزانے خالی رہتے ہیں-ٹیکس کی صحیح وصولی اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک ملکی قیادت ایماندار نہ ہو-بدقسمتی ہماری موجودہ قیادت مانگے تانگے کی قیادت ہے جو نا تو اہل اور نا ہی دیانتدار ہے-اس لئے کچھ بھی ہونے والا نہیں ہے-بجٹ بنتے رہینگے اور عوام کو سبز باغ دکھائے جاتے رہینگے اور عوام بھوکے ننگے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرتے رہینگے اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے رہینگے-
الطاف چودھری
13.06.2019
Leave a Reply