شہر آشوب اسلام

شہر آشوب اسلام

‎[ریاست ہائے بلقان نے مل کر ایک ساتھ ترکی پر حملہ کیا تھا۔ اور اس سے ترکی کو جو نقصان عظیم اٹھانا پڑا، اس پر تمام دنیائے اسلام نے خون کے آنسو بہائے تھے۔ ان ہی اشک فشانیوں کے چند قطرات یہ ہیں۔]

‎حکومت پر زوال آیا تو پھر نام و نشان کب تک
‎چراغ کشۂ محفل سے اُٹھے گا دُھواں کب تک

‎قبائے سلطنت کے گر فلک نے کر دیے پرزے
‎فضائے آسمانی میں اڑیں گی دھجیاں کب تک

‎مراکش جا چکا، فارس گیا اب دیکھنا یہ ہے
‎کہ جیتا ہے یہ ٹرکی کا مریض سخت جاں کب تک

‎یہ سیلاب بلا بلقان سے جو بڑھتا آتا ہے
‎اُسے روکے گا مظلوموں کی آہوں کا دہواں کب تک

‎یہ سب ہیں رقص بسمل کا تماشا دیکھنے والے
‎یہ سیر اُن کو دکھائے گا شہید نیم جان کب تک

‎یہ وہ ہیں نالۂ مظلوم کی لے جن کو بھاتی ہے
‎یہ راگ اُن کو سنائے گا یتیم ناتوان کب تک

‎کوئی پوچھے کہ اے تہذیب انسانی کے استادو
‎یہ ظلم آرائیاں تاکے یہ حشر انگیزیاں کب تک

‎یہ جوش انگیزی طوفان بیدادو بلاتا کے!
‎یہ لطف اندوزئ ہنگامۂ آہ و فغان کب تک

‎یہ مانا تم کو تلواروں کی تیزی آزمانی ہے
‎ہماری گردنوں پر ہو گا اس کا امتحان کب تک

‎نگارستان خون کی سیر گر تم نے نہیں دیکھی!
‎تو ہم دکھلائیں تم کو زخم ہائے خون چکان کب تک

‎یہ مانا گرمئ محفل کے سامان چاہییں تم کو
‎دکھائیں ہم تمھیں ہنگامۂ آہ و فغان کب تک

‎یہ مانا قصہ غم سے تمھارا جی بہلتا ہے
‎سنائیں تم کو اپنے درد دل کی داستان کب تک

‎یہ مانا تم کو شکوہ ہے فلک سے خشک سالی کا
‎ہم اپنے خون سے سینچیں تمھاری کھیتیاں کب تک

‎عروس بخت کی خاطر تمھیں درکار ہے افشاں!
‎ہمارے زرہ ہائے خاک ہوں گے زرفشاں کب تک

‎کہاں تک لو گے ہم سے انتقام فتح ایوبیؔ
‎دکھاؤ گے ہمیں جنگ صلیبی کا سماں کب تک

‎سمجھ کر یہ کہ دُھندلے سے نشان زفنگاں ہم ہیں
‎مٹاؤ گے ہمارا اس طرح نام و نشان کب تک

‎زوال دولتِ عثمان زوال شرع ملت ہے
‎عزیز و فکر فرزند و عیاں و خانماں کب تک

‎خدارا تم یہ سمجھے بھی کہ یہ طیاریاں کیا ہیں
‎نہ سمجھے اب تو پھر سمجھو گے تم یہ چیستاں کب تک

‎پرستاران خاک و کعبہ دنیا سے اگر اُٹھے
‎تو پھر یہ احترام سجدہ گاہ قُدسیاں کب تک

‎جو گونج اُٹھے گا عالم شور ناموش کلیسا سے
‎تو پھر یہ نغمہ توحید و گلبانگِ اذن کب تک

‎بکھرتے جاتے ہیں شیرازہ اوراق اسلامی
‎چلیں گی تند باد کفر کی یہ آندھیاں کب تک

‎کہیں اُڑ کر نہ دامانِ حرم کو بھی یہ چھو آئے
‎غبار کفر کی یہ بے محابا شوخیاں کب تک

‎حرم کی سمت بھی صیدا فگنوں کی جب نگاہیں ہیں
‎تو پھر سمجھو کہ مرغان حرم کا آشیاں کب تک

‎جو ہجرت کر کے بھی جائیں تو شبلی اب کہاں جائیں
‎کہ اب امن و امان و شام و نجد و قیروان کب تک

‎(دیوان شبلی ۱۲۲۔۱۲۵)

——————————-

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*