
خزانہ خالی ہے اور حکومت کا IMF میں آنا جانا لگا ہوا ہے-
جب سے انصافیوں نےحکومت سمبھالی ہے یہ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (IMF) میں آنے جانے کا تماشہ کر رہی ہے – اسد عمر ابھی آئی ایم ایف سے 15 ارب ڈالر کے قرضےکے مذاکرات کرکے وطن واپس بھی نہیں پہنچے تھے کہ خان صاحب کا بیان آ گیا کہ ” شاید حکومت کو آئی ایم ایف کے پاس نہ جانا پڑے‘‘ – ان کا یہ بیان اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ حکومت ابھی تک مخمصے میں ہے کہ وہ آئی ایم ایف سے قرضہ لے گی کہ نہیں لے گی – پہلے شنید تھی کہ ہمارے برادرممالک سعودی عرب چین اور متحدہ عرب امارات ہماری مالی ضروریات پوری کرنے میں پہلے کی طرح فراخ دلی کا مظاھرہ کرینگے اور ہمیں آئ ایم ایف کے پاس جانے کی ضرورت نہیں پڑے گی – مگر حکومتی عہدیداروں کے بونگے بیانات کی وجہ سے ان دوست ممالک نے امداد سے ہاتھ کھینچ لئے اور ہمیں سوائے طفل تسلیوں کے کچھ بھی نہیں ملا -دنیا کے متعدد ممالک اپنی مالی دشواریوں پر قابو پانے کیلئے آئی ایم ایف سے قرضے لیتے ہیں اور خود ہماری پچھلی حکومتیں بھی گزشتہ عشروں سے آئی ایم ایف کی شرائط قبول کرتی رہی ہیں- موجودہ حکومت کی بیل آئوٹ پیکیج سے گریز کرکے یہ عوام کو یہ باور کرانے کوشش کر رہی ہے کہ وہ ملک کو اسں مالیاتی ادارے کی کڑی شرائط سے بچانے کی کوشش کر رہی ہے – آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی ( اے پی این ایس) کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز(سی پی این ای) اور پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن ( پی بی اے) کے وفد سے گفتگو کے دوران عمران خان کا کہنا تھا کہ دوست ملکوں سے مشوروں اور تعاون کی درخواست کا مثبت جواب آیا ہے- توقع ظاہر کی گئی ہے کہ نئی حکومت اپنی پالیسیوں سے جلد مسائل پر قابو پا لے گی اور چھ ماہ بعد اچھی خبریں ملیں گی – 17اکتوبر کو عمران خان کی زیر صدارت ملک کی معاشی صورتحال سے متعلق ایک اجلاس میں وزیر خزانہ اسد عمر نے آئی ایم ایف سے مذاکرات کے باب میں تفصیلی بریفنگ دی جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ نومبر کے مجوزہ مذاکرات سے متعلق حکمت عملی کوآخری صورت دی جا رہی ہے- ایسے وقت، کہ امریکہ آئی ایم ایف کے قرضے کے حصول کی مجبوری کو افغانستان کے حوالے سے پاکستان پر دباؤ ڈالنے اور نئی دہلی واشنگٹن کے ذریعے اسلام آباد کیلئے مشکلات پیدا کرنے پر تلا ہوا ہے،پی ٹی آئی حکومت تنی ہوئی رسی پر چلتی نظر آرہی ہے- 6ستمبر کو امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور وزیر دفاع جم میٹس نے نئی دہلی میں جو معاہدے کئے اور مشترکہ اعلامیے میں جو کچھ کہا گیا ،اسے پاکستان کیلئے خوشگوار نہیں کہا جا سکتا- بدھ17اکتوبر کو امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے اسسٹنٹ سیکرٹری ،ہینری انشر نے ولسن سینٹر میں خطاب کے دوران یہاں تک کہہ دیا کہ پاکستان جب تک خطے میں پالیسی تبدیل نہیں کرتا، اس پر دباؤ برقرار رہے گا۔ دوسری طرف یہ عجیب تجویز سامنے آئی کہ آئی ایم ایف اس بات کو یقینی بنائے کہ اسلام آباد کو قرض میں دیئے گئے ڈالر چین کا قرضہ بےباق کرنے کے کام نہیں آئیں گے- چینی دفتر خارجہ کے ترجمان لوکانگ منگل 16اکتوبر کو واضح کر کیا ہے کہ سی پیک معاشی بحران کا سبب نہیں دو حکومتوں کا ایسا تجارتی معاہدہ ہے جس میں شامل تمام منصوبے باہمی رضا مندی سے طے کئے گئے ہیں- اس تناظر میں پاکستان کو اپنے طور پر بھی بحران سے نکلنے کیلئے کوشش کرنی ہو گی سادگی اور کفایت کے طریقے اختیار کرنے ہونگے- درآمدات گھٹانی اور برآمدات بڑھانے ہونگی اور منی لانڈرنگ روکنے کیلئے ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے- ٹیکسوں کی وصولی کا طریق کار سادہ بنایا جانا ضروری ہے- ان سب اقدامات کو نیک نیتی کے ساتھ لاگو کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ ملک معاشی بحران پر قابو نہ پا سکے- یہ بات ضروری ہے کہ غریب آدمی کو مہنگائی کے بوجھ سے بچانےکی تدابیر کی جائیں-امراء کو براہ راست ٹیکس کے نیٹ میں لایا جائے اور لوٹی ہوئی دولت ملک میں واپس لائی جائے-اگر ایسا نہ کیا گیا پتہ نہیں کہ ہماری اور کتنی نسلوں کو قرض خواہوں کی کتنی بتیاں پوری کرنی پڑیں گی اور مزید کتنی دفعہ آئی ایم ایف کے تلوے چاٹنے پڑیں گی-
الطاف چودھری
20.10.2018
Leave a Reply