پچاس لاکھ گھر – انصافیوں کے شیخ چلی کے منصوبے ( 1 )

پچاس لاکھ گھر – انصافیوں کے شیخ چلی کے منصوبے ( 1 )

پچاس لاکھ گھر بنانا اتنا بھی آسان نہیں ہے جتنا سمجھا جارہا ہے – ملک کی اعلی عدلیہ کے چیف جسٹس جناب ثاقب نثار نے تو ان گھروں کو خالہ جی کے گھروں سے تشبیہ دی ہے – پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر -اعلان اور نعروں کی حد تک تو ممکن ہے مگر عملی طور پر مشکل ہے- اگر لاہور اور کراچی کے پکے مکانات کا شمار کیا جائے تو یہ پچاس لاکھ تک نہیں پہنچتے- اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ کو ان شہروں کی طرح دو شہر اور بسانے پڑیں گے – کہا جا رہا ہے کہ یہ منصوبہ کم آمدنی والے خاندانوں کے لئے ہے اور ایک مکان کی کل قیمت 15 لاکھ روپئے ہو گی جو خریدار کو 25 سال کی آسان قسطوں میں ادا کرنی ہو گی – حکومت کے دانشوروں کے تخمینوں کے مطابق اس منصوبے کے لئے 160 ارب ڈالر درکار ہونگے – اسطرح اگر دیکھا جائے تو ایک مکان کی قیمت 48 لاکھ روپئوں کےلگ بھگ بنتی ہے نا کہ 15 لاکھ روپئے- اور اگر پچیس سالوں کا آٹھ دس فی صد کی شرح سے سود ملایا جائے تو یہ ایک کروڑ سے زیادہ بنتا ہے اور اسطرح صارف کو ایک مکاں ڈیڑھ کروڑ کا پڑے گا-یہ بات حقیقت سے دور دکھائی دے رہی ہے کہ کوئی کم آمدنی والا اتنا مہنگا مکان خریدنے کی استطاعت رکھتا ہو گا- اتنے بڑی تعداد میں گھر بنانے کے لئے پیسہ بھی درکار ہو گا جو اس وقت حکومت کے پاس نہیں ہے- ملک اندرونی اور بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے- اس وقت ملک کے مجموعی قرضے اور واجبات 268 کھرب 15 ارب روپے ہیں -کی ایک سال میں قرضوں کے بوجھ میں 34 کھرب 77 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے-سٹیٹ بینک کے مطابق رواں مالی سال کی دوسری سہ ماہی کے دوران مجموعی طور پر 9 کھرب 91 ارب روپے کے نئے قرضے لیے گئے ہیں جس سے دسمبر کے اختتام تک اندرونی اور بیرونی قرضوں اور واجبات کا مجموعی حجم 268 کھرب 14 ارب 70 کروڑ روپے ہو گیا ہے- قرضے اور واجبات جی ڈی پی کے 74.7 فیصد ہیںجو صرف تین ماہ قبل 71.9 فیصد تھے- مجموعی قرضوں میں سے 228 کھرب 21 ارب روپے حکومت کے قرضے ہیں – پچھلے چار سال کے دوران پاکستان کے قرضوں اور واجبات میں 47 فیصد اضافہ ہوا- رپورٹ کے مطابق سال کے دوران حکومت نے اندرونی ذرائع سے 12 کھرب 45 ارب روپے کے نئے قرضے لئے ہیں- مجموعی بیرونی قرضے 13 ارب 13 کروڑ 30 لاکھ ڈالر کے اضافے سے 88 ارب 89 کروڑ سے بھی تجاوز کر گئے ہیں – چار سال کے دوران پاکستان کے قرضوں اور واجبات میں 47 فیصد اضافہ ہوا ہے – ڈالر 103 روپئے سے آج 136 روپئے کا ہو گیا ہے اور ملک میں زرمبادلہ کےذخائر 6 ارب ڈالر رہ گئے ہیں جس میں 4 ارب ڈالر بنکوں کے پاس ڈالر یا پاؤنڈ اکاؤنٹ میں عام شہریوں کے ہیں اور اس طرح حکومت کے خزانے میں اپنے صرف 2 ارب ڈالر ہیں-حکومت چلانے کے لئے حکومت کو فوری طور پر دس بارہ ارب ڈالر کی ضرورت ہے- سعودی عرب اور چین نے ہاتھ کھینچ لیا ہے اور ان برادر ملکوں نے جو ہمیشہ پاکستان کی مدد کرتے تھے اب ہچکچا رہے ہیں -حکومت اب آئی ایم ایف پیکچ لینے پر مجبور ہو گئی ہے-جس سے ملک میں مہنگائی کی ایک سخت لہر اٹھے گی اور ملکی کرنسی اپنی قدر اور کھوئے گی- کہا جا رہا ہے کہ آنے والے چند ہفتوں میں ڈالر 150 سے اوپر کا ہو جائے گا جسکا اثر مکانات کی تعمیر پر بھی پڑے گا اور ان کی لاگت میں آضافہ ہو گا – پاکستان سٹاک ایکسجینج 54000 پوائنٹ سے گر کر 39000 پوائنٹ تک نیچے گر گئی ہے- دو مہینوں میں اربوں روپئے کا نقصان ہو چکا ہے – ملک میں مھنگائی کا ایک طوفان ہے جو تھمتے نہیں تھم رہا ہے- آٹا سیمنٹ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھا دی گئیں ہیں اور غریب کو روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں- کیا انصافیوں کی حکومت نے ملک سے غریبی مکانے کی بجائے غریب مکاؤ کا ارادہ کر لیا ہے-منصوبہ اچھا ہے- نہ رہینگے غریب اور نہ رہے گی غریبی-

الطاف چودھری
11.10.2018

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*