
انصافیوں کی حکومت کے تیس دن-افراتفری بد انتظامی اقرا پروری اور لوٹ کھسوٹ
ملکی خزانہ خالی ہے-معیشت بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے-5 ارب روپئے روزانہ تو ان قرضوں پر صرف سود ہی دینا پڑتا ہے- سود ادا کرنے کے لئے بھی اضافی قرضے لینے پڑ رہے ہیں – اب تو چین اور سعودی عرب جیسے درینہ دوست بھی مدد سے کنی کترا رہے ہیں – عمران خان اپنے چھوٹے موٹوں گول گپو کے ساتھ ریاض اور آرمی چیف بیجنگ تشریف لے گئے تھے اور تسلی تشفی کرنے کی کوشش کی ہے مگر بات بنتی دکھائی نہیں دے رہی ہے- ملک میں افراتفری اور انارکی کی صورت حال ہے-کراچی میں اسٹریٹ کرائم کی شرح پھر 2013 کی سطح پر پہنچ گئی ہے-شھر میں غنڈے بدمعاش اجرتی قاتل پھر چوہوں کی طرح بلوں سے نکل آئے ہیں- شہر میں بھتہ خوری ہے وہیکل کی چوری ہے اغوا برائے تاوان ہے اور قتل و غارت ہے-عمران خان نے شہر میں بڑھتے ہوئے جرائم کا ذمہ دار شہر میں بسنے والے غریب لاچار بے یار و مدد گار بنگالی بہاری اور افغانی مہاجرین کو قرار دیا ہے جو لغو اور جھوٹ ہے-حکومت اپنی گاڑیاں اور ہیلی کاپڑ اونے پونے داموں بیجنے پر مجبور ہے-ملک کے گورنر ہاؤسز اور دیگر اثاثہ جات پر بھی چوروں کی نظر ہے- وفاقی وزیرریلوے شیخ رشید کو ریلوے کے پلازے زمینیں اور گیسٹ ہاؤسز بیچنے کی بہت جلدی ہے پتہ نہیں ہے کہ کل حکومت ہو یا نہ ہو – وزیر اعظم ہاؤس کی بھینسیں بیچی جا رہی ہیں کہ اس سے ملکی قرضوں کا بوجھ کم ہو گا-اگر انصافی ان بھینسوں کو بیچنے کی بچائے ان کا دودھ بیچیں تو ملکی معیشت پر اس کے مثبت اثرات مرتب ہو سکتے ہیں-ان کے گوبر سے وزیر اعظم ہاؤس کے کچن کے ایندھن کی ضروریات پوری ہو سکتی ہیں اور بہت سے بے روزگار انصافیوں کو ان کا دودھ بیچنے پر لگایا جا سکتا ہے-سچ ہے کہ بیوقوفوں کے سر پر سینگ نہیں ہوتے-وزیر خزانہ نے منی بجٹ پیش کیا ہے جس میں 450 ارب روپئے کی ترقیاتی فنڈز میں کٹوتی اور پانچ ہزار اشیاء پر 158 ارب روپئے اور ترقیاتی کاموں پر 450 ارب کے نئے ٹیکس لگا دئے گئے ہیں – گیس 20 سے 143 فی صدی مہنگی کر دی گئی ہے اور اب پیڑول کی باری ہے- مارکیٹ میں 20 کلو آٹے کا تھیلا 20 روپئے مہنگا ہو گیا ہے- لگتا ہے انصافیوں کے ہاتھ غریبوں کو مارکر غریبی مٹانے کا آسان نسخہ ہاتھ آ گیا ہے-اپنے وعدے کے برعکس عمران خان وزیر اعظم ہاؤس میں ہی رہ رہے ہیں-پروٹوکول نہ لینے کی بات ہوا ہو گئی ہےاور انصافی مہنگی گاڑیوں کی سیٹوں پر پھدکتے پھر رہے ہیں-ایک مہینے میں وزیر اعظم کے بیرونی ممالک کے دو دورے اور وہ بھی خصوصی طیارے پر- بیورو کریسی کو سیاست سے پاک کرنا عمران خان کا ایک او ر وعدہ تھا لیکن ان کی حکومت نے اسکے الٹ ہی کام کیا ہے – ڈی پی او پاک پتن رضوان گوندل کو پہلے منصب سے ہٹایا گیا اور جب انہوں نے خاور مانیکا سے معافی مانگنے سے انکار کیا تو اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے حوالے کردیا – وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے رضوان گوندل کو طلب کرکے معافی مانگنے پر مجبور کیا- عاطف میاں قادیانی کو اقتصادی مشاورتی کونسل کا رکن بنایا گیا اور جب عقیدے کی بنیاد پر مزاحمت کے ساتھ دبائو بڑھا تو حکومت نے پہلے تو مزاحمت کی لیکن بالآخر دبائو کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے – گیس کے نرخوں میں اضافے کے معاملے میں وزیر اطلاعات فواد چوہدری ابتداء میں تردید کرتے رہے لیکن بعد ازاں خبر درست ثابت ہوئی اور وزیر پٹرولیم نے نرخوں میں اضافے کا اعلان کر دیا -سی پیک کو بھی غیر ذمہ دارانہ بیانات سے نہیں بخشا گیا ہے وزیراعظم کے مشیر تجارت عبدالرزاق دائود نے فنانشل ٹائمز کو بتایا کہ حکومت پروجیکٹ پر نظرثانی کا ارادہ رکھتی ہے اور جب اس خبر نے ناراضی اور قیاس آرائیوں کو جنم دیا تو مشیر صاحب کواپنے الفاظ واپس لینے پڑے -عمران خان اہم عہدوں پر منظور نظر افراد کو گزشتہ حکومت کے دور میں تعینات کئے جانے پر تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں جس میں نجم سیٹھی کو پی سی بی کا چیئرمین بنایا جانا بھی شامل تھا- عمران خان بھی وہی کر رہے ہیں جس کے لئے وہ نواز شریف پر نکتہ چینی کرتے رہے ہیں – انہوں نے احسان مانی کو پاکستان کرکٹ بورڈ کانیا سربراہ بنایا ہے – زلفی بخاری کو بھی وزیر اعظم کا سمندر پار پاکستانیوں کا مشیر بنا دیا گیا ہے حلانکہ ان کے پاس پاکستانی شہریت ہی نہیں ہے -عمران خان مختلف ترقیاتی کاموں کے افتتاح کرنے پر بھی نواز شریف پر نقاد رہے لیکن گزشتہ روز لوگوں نے انہیں راولپنڈی، میانوالی ایکسپریس کا افتتاح کیا ہے-انتخابی کامیابی کے بعد اپنی تقریر میں مبینہ انتخابی دھاندیوں پر اپوزیشن کے مطالبے کے مطابق حقائق جاننے والا کمیشن تشکیل دینے کا کہا اور کہا وہ ہر حلقہ انتخاب کھولنے کے لئے تیار ہیں مگر بعد میں یہ مکر گئے – امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق پومپیو نے پاکستان پر دہشت گردوں کے ٹھکانوں کے خلاف کارروائی پر زور دیا تھا مگر اس دعوے کی پاکستان کے دفتر خارجہ نے پہلے تردید کی اور پھر تصدیق کر دی-
اسی طرح بھارتی وزیراعظم مودی کے تہنیتی پیغام کی تشریح کے حوالے سے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا پہلےروز کہنا تھا کہ بھارتی وزیر اعظم نے جامع مذاکرات کے اعادے کی پیشکش کی ہے جس کی بھارت نے تردید کی – بعد ازاں دفتر خارجہ کو بیان واپس لینا پڑا-غرض انصافیوں کی کوئی کل سیدھی نہیں ہے اور یہ حکومت کرنے کو بھی دھرنا دینا ہی سمجھ رہے ہیں-ملک کے وہ ادارے جو انہیں اقتدار میں لائے تھے وہ بھی شاید ان کی عقل و دانش پر ماتم کر رہے ہیں- اگر اس یوج ماجوج کو زیادہ دیر تک اسی طرح گل کھیلانے کی کھلی چھٹی دی گئی تو ملک تو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے-
الطاف چودھری
21.09.2018
Leave a Reply