پاکستان میں تعلیم کی تجارت

پاکستان میں تعلیم کی تجارت

تعلیم تجارت نہیں ہے- بدقسمتی سے
ملک میں یار لوگوں نے تعلیم کو تجارت بنا لیا ہے-جس کے پیسے ہیں وہی اپنے بچوں کو تعلیم دلوا سکتا ہے اور جو اپنےبچوں کے لئے دو وقت کی روٹی نہیں دے سکتا وہ انھیں کیا خاک سکول بھیجے گا-‎دراصل تعلیم عام کرنے کے لیے قائم نجی سکولوں نے اسے اتنا خاص کردیا ہے کہ مالی وسائل سے محروم طبقہ کو تعلیم سے محروم کردیا گیا ہے- ملک میں تعلیم کوئی عام چیز نہیں رہی جسے ایرا غیرا نتھو خیرا حاصل کرسکے- ملک کے نام نہاد پالیسی میکرز کا خیال ہے کہ علم کی قدر تب ہوگی جب اُسے اتنا خاص کردیا جائے کہ اُس کے حصول کے لیے قارون کا خزانہ بھی کم پڑجائے اور قارون کو بھی اپنے بچے پڑھانے کے لیے بینک یا بہنوئی سے قرضہ لینا پڑے۔ اس فکر و فلسفے پر عمل کرتے ہوئے نجی اسکول اپنی فیسیں مقرر کرتے ہیں اور پھر بڑھاتے چلے جاتے ہیں، جس کے ساتھ علم کی عظمت آپ ہی آپ اونچی ہوتی چلی جارہی ہے- یوں تو ہمارے ملک میں ادارے، شعبے، جماعتیں اور افراد آپس میں کم ہی متفق ہوتے ہیں اور باہمی تعاون کا مظاہرہ کرتے ہیں لیکن تعلیم کے معاملے پر حکومت اور سرکاری درس گاہیں، نِجی تعلیمی اداروں سے پورا پورا تعاون کررہی ہیں۔ حکومت نجی اسکولوں کے معاملات کو اُن کا نجی معاملہ سمجھتے ہوئے مداخلت سے گریز کرتی ہے اور جہاں تک سرکاری سکولوں کا تعلق ہے تو ان کی خدمات کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ اس دائرے نے بڑھتے بڑھتے تعلیم کو پَرے کردیا ہے۔ یہ سکول ان بے روزگاروں کو روزگار فراہم کرنے کا ذریعہ ہیں جو عجوبہءِ روزگار کچھ نہ کرنے کے لیے دنیا میں آتے ہیں، یوں ان تعلیمی اداروں کے ذریعے سیاست دانوں کو اپنے حامیوں کو مطمئن کرنے کا موقع ملتا ہے، جسے کہتے ہیں جمہوریت کے ثمرات عوام تک پہنچنا- ان اسکولوں میں سماج میں میل جول کے فروغ کے لیے اوطاق بنائی جاتی ہے، لوگوں کو خالص دودھ کی فراہمی کے لیے بھینسوں کے باڑے قائم کیے جاتے ہیں، یہ اسکول گودام بن کر ملک میں تجارتی اور معاشی سرگرمیاں بھی فروغ دے رہے ہیں اور پولنگ اسٹیشن بن کر جمہوریت کا تسلسل قائم رکھے ہوئے ہیں۔ اب اتنی ساری خدمات انجام دینے والے ان اسکولوں سے یہ تقاضا کہ پڑھائیں بھی، کہاں کا انصاف ہے- ایسا نہیں کہ ان میں تعلیم نہیں دی جاتی، ان میں اساتذہ کے بات بات پر پڑنے والے ڈنڈے، ٹوٹا پھوٹا فرنیچر، خستہ حال دیواروں اور چھتیں، صرف تنخواہ کے لیے نظر آنے والے گھوسٹ یا بھوت اساتذہ اور ایسی ہی دیگر سہولتیں دی جاتی ہیں-سرکاری اسکولوں سے ملنے والا یہ سبق والدین کو ازبر ہوچکا ہے، اس لیے سرکاری اسکولوں کی پیلی عمارتوں کے تصور سے ہی ان کا رنگ پیلا پڑجاتا ہے۔ یوں پڑھانے کا سارا ٹھیکا نجی سکولوں کو دے دیا گیا ہے- تعلیم کو خاص بنا دینے والے نجی اسکولوں کے بارے میں یہ غلط فہمی عام ہے کہ وہ صرف علم بانٹ کر ملک و قوم کی خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔ نہیں صاحب، والدین کے نوٹ اور دل جلا کر وہ علم کی روشنی تو پھیلا ہی رہے ہیں، اس کے ساتھ وہ دیگر خدمات بھی اپنے سر لیے ہوئے ہیں- یہ سکول والدین کو مصروف رکھنے کا فریضہ بحسن خوبی نبھا رہے ہیں۔ خالی دماغ شیطان کا گھر ہے اور فرصت انسان کو بے راہ روی پر مائل کرتی ہے۔ چنانچہ ان اسکولوں کے مالکان نے ٹھانی ہے کہ والدین کو مسلسل کام میں لگائے رکھیں۔ بچے کے داخلے سے پہلے اور بعد میں اس کے تعلیمی اخراجات کی فکر والدین کے دماغ پر اس طرح سوار رہتی ہے کہ شیطان کو بہت ڈھونڈنے کے باوجود وہاں کوئی خالی پلاٹ نہیں ملتا اور وہ مایوس ہوکر کسی اسکول کے مالک کے بھیجے میں قیام کرلیتا ہے- اِدھر کسی کے بچے کا اسکول میں داخلہ ہوتا ہے اور اُدھر وہ زیادہ سے زیادہ کمانے کی تگ و دو کرنے لگتا ہے تاکہ فیس جاتی رہے۔ کوئی دو نوکریاں کرتا ہے تو کوئی پارٹ ٹائم۔ مائیں بھی گھر بیٹھ کر مارننگ شوز اور ڈراموں میں وقت برباد کرنے کے بجائے ملازمت کرنے پر مجبور ہوجاتی ہیں۔ اس طرح لوگوں کو فراغت سے نجات مل جاتی ہے- یہ اسکول سماجی رابطوں کو بھی فروغ دیتے ہیں۔ بچے کے داخلے کے لیے پہلے ماں باپ اثر و رسوخ والے رشتے داروں اور دوستوں سے جا جاکر ملتے ہیں، پھر فیس دینے کے لیے کبھی بچے کی پھوپھی کے گھر کا چکر لگتا ہے کبھی ماموں کا دروازہ کھٹکھٹایا جاتا ہے- ہر سال فیسیں بڑھا کر اور نِت نئے اخراجات والدین پر ڈال کر انہیں امراضِ قلب، بلند فشار خون اور نفسیاتی بیماریوں کا شکار کردیا جاتا ہے، اور فیسوں سے بچنے والی رقم وہ ہسپتالوں کو سونپ دیتے ہیں۔ یوں یہ سکول ’طبی صنعت‘ کی ترقی میں بے مثال کردار ادا کر رہے ہیں-ارباب اقتدار کو عقل کے ناخنوں کی ضرورت ہے اور ان نا مراد نجی سکولوں سے قوم کی جان چھڑانی ہو گی-یاد رکھو جو قوم تعلیم کو تجارت بنا لیتی ہے صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہے-

الطاف چودھری
30.03.2018

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*