
احتجاجی سیاست
بلاشبہ کسی معاشرے میں احتجاج عوام کا جمہوری حق ہوتا ہے مگر توڑ پھوڑ کرنا سرکاری املاک کو نقصان پنچانا اور جلسے جلوسوں دھرنوں کی سیاست سے شہریوں کی زندگی اجیرن کرنے کا حق کسی کو نہیں ہے- بدقسمتی سے ملک میں سیاسی بالا دستی مغربی ٹوڈیوں اور گماشتوں کو حاصل ہے-نام کے تو یہ پاکستانی ہیں مگر ان کا سب کچھ باہر ہے- ان کی اولاد باہر دولت باہر محلات اور مفادات باہر-کوئی امریکی انٹیلیجنس کی پے لسٹ پر ہے تو کوئی برطانیہ کی- کوئی سعودیوں کا دوست ہے تو کوئی یہودی گولڈ سمتھ کا داماد-پاکستان سے انکا تعلق محض تکلفن ہے یہ تو یہاں بس دولت لوٹنے اور بے کس اور مظلوم انسانوں کو تختہ مشق بنانے کےلئے آتے یہں-اگر کوئی ان کے ظلم کے خلاف آواز اٹھاتا ہے تو یہ اسکا تیاپانجہ کر دیتے ہیں-جلسے جلوس بھرنا بھروانا اور بلوائی مہیا کرنے کروانے نے ملک میں ایک نفع بخش انڈسٹری کی صورت اختیار کر لی ہے-آپ آرڈر پر بندے اکھٹے کر سکتے ہیں اور یہ لوگ لوٹی دولت اور اپنے فرنگی آقاؤں کی آشیر باد سے ہزاروں کے مجمعے اکٹھے کرکے کسئ بھی وقت ملک میں بدامنی کی فضا پیدا کرکے حکومتی نظام کو تہس نہس کرنے پر مقتدر ہوتے ہیں-یہ نت نئے دھرنے مار دھاڑ توڑ پھوڑ گھیراؤ جلاؤ پی ایم ہاؤس کا گھیراؤ پارلیمنٹ کے تقدس کی پائمالی اور سرکاری اور نجی ٹی وی چینلز پر دھاوے اور قبضے یہ غنڈہ گردی نہیں تو اور کیا ہے- سترہ جنوری سے ملک میں پھر مار دھاڑ کا بازار لگنے کو ہے-مقصد یہ ہے کہ مارچ 2018 سے پہلے پہلے پنجاب میں شیباز شریف کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا جائے تا کہ آئیندہ الیکشن جیتنے کی آخری رکاوٹ بھی دور ہو سکے- اگر شہباز شریف دباؤ میں آ کر مستعفی ہو جاتے ہیں تو یہ شریفوں کے پنتیس سالہ اقتدار اور سیاست کا خاتمہ ہو گا- اسلئے وہ کبھی بھی دباؤ میں نہیں آیئنگے چاہے اسکے لئے انہیں دس بارہ لاشیں اور گرانی پڑیں- اللہ میرے ملک پر رحم فرمائے-
الطاف چودھری
15.01.2018
Leave a Reply