عید سعید ہے۔ عالمِ اسلام کے ہر شہر، ہر گلی، اور ہر محلے میں خوشیاں، رنگ، قہقہے اور مسرتیں بکھری ہوئی ہیں۔ لیکن ان مناظر کے پسِ پردہ چھپے تلخ حقائق کو نظرانداز کرنا ایک سنگین غفلت ہوگی، خصوصاً غزہ میں، جہاں بچے بھوک، پیاس، خوف اور جنگ کے سائے میں پل رہے ہیں، اور جہاں زندگی صرف بقا کی جدوجہد کا نام بن چکی ہے۔یہ تفاوت محض جغرافیائی نہیں، بلکہ انسانی رویّوں میں موجود بے حسی اور غیر متوازن شعور کی علامت ہے۔ ہم میں سے بیشتر کا درد صرف سوشل میڈیا تک محدود رہ گیا ہے، جبکہ ہماری عملی زندگی، ہماری ترجیحات اور ہمارا طرزِ صرف اس دکھ سے ہم آہنگ نہیں ہوتا۔ اگر ہمارا درد واقعی حقیقی ہے، تو اس کا اظہار ہمارے رویّوں میں ہونا چاہیے ، سادگی، قربانی، مالی معاونت اور شعور کی ترویج کی صورت میں۔ کیا ہم میں اتنی ہمت نہیں کہ اپنی عید کی ایک ضیافت کم کرکے کسی مظلوم کی بھوک مٹا سکیں؟ ہمیں اپنے ایمان، اپنی انسانیت اور اپنے شعور پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا، کیونکہ عید صرف خوشی منانے کا دن نہیں، بلکہ اُن محروموں کے ساتھ اپنی خوشیاں بانٹنے کا دن ہے جن کے پاس نہ کھانے کو کچھ ہے، نہ پینے کو، نہ پہننے کو- یعنی نہ جینے کو اور نہ مرنے کو-اللہ سبحان و تعالی ہمیں بے حسی، غفلت اور منافقت سے محفوظ رکھے، اور ہمیں دوسروں کے دکھ درد کو بانٹنے والا دل عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
الطاف چودھری
09.06.2025

Leave a Reply