قیاس آرائیاں کرنا نہ صرف ہمارے تعلقات کو نقصان پہنچا سکتا ہے بلکہ ہمیں حقیقت سے بھی دور کر دیتا ہے۔ جب ہم دوسروں کے خیالات اور جذبات کے بارے میں خود ہی فرض کر لیتے ہیں، تو ہم ان کی حقیقت کو سمجھے بغیر ہی ردعمل دینا شروع کر دیتے ہیں، جس سے غلط فہمیاں اور دوریاں پیدا ہو سکتی ہیں -قرآن کریم میں فرمان رب العزت ہے: وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ ۚ اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُـوْلًا “ اور جس چیز کا تمہیں علم نہیں اس کے پیچھے نہ پڑو، بے شک کان، آنکھ اور دل سب کی باز پرس ہوگی۔”(سورۃ بنی اسرائیل آیت نمبر 36)-یہ آیت مبارکہ ہمیں نصیحت کرتی ہے کہ ہم بلا تحقیق کسی بات پر یقین نہ کریں اور دوسروں کے بارے میں غیر ضروری قیاس آرائیاں کرنے سے گریز کریں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ سنی سنائی بات آگے بیان کر دے۔”(صحیح مسلم) یہ حدیث مبارکہ ہمیں سکھاتی ہے کہ بغیر تصدیق اور تحقیق کے کسی بھی بات کو آگے بڑھانا غلط ہے، اور اس سے دوسروں کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔لہذا واضح ہوتا ہے کہ دوسروں کے بارے میں قیاس آرائی کرنا، بدگمانی رکھنا، اور بغیر تحقیق کے ان کے خیالات و جذبات کا فیصلہ کرنا نہ صرف اخلاقی طور پر غلط ہے بلکہ دینی طور پر بھی ممنوع ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ہمیشہ حسنِ ظن رکھیں، بات چیت اور تحقیق کے بعد ہی کسی نتیجے پر پہنچیں، اور دوسروں کے بارے میں اچھا گمان رکھ کر اپنے تعلقات کو مضبوط بنائیں۔
الطاف چودھری
26.02.2025
Leave a Reply