انتخابات کے بعد ملک میں انارکی ہے-حکومت سازی کی کوشسیں بارآور دکھائی نہیں دے رہی ہیں -نواز شریف چوتھی بار وزیر اعظم بننے نہیں جا رہے ہیں اور انہوں نے میاں شہباز شریف کو مسلم لیگ نون کو وزیر اعظم کے عہدے کے لئے نامزد کر دیا ہے- پنجاب میں نون لیگ اپنا عددی ہدف حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے اور اس کی اس وقت 155 سیٹیں ہو گئی ہیں -اس لئے مریم نواز شریف کے لئے پنجاب کی وزارت اعلی پکی ہے-اگر شہباز شریف پی پی پی اور متحدہ کے ساتھ مرکز میں حکومت بنا بھی لیتے ہیں تو ان کے لئے یہ پھولوں کی سیج نہیں ہو گی-اس وقت ملکی معیشت گرداب میں پھنسی ہوئی ہے اور ملک ابھی تک ڈیفالٹ کے خطرے سے باہر نہیں نکل پایا ہے-ملک میں مہنگائی کا جن قابو سے باہر ہے اور افراط زر کی شرح 42 فی صدی سے زیادہ ہے – حالیہ برسوں میں، گندم کا آٹا، گوشت اور چاول جیسی ضروری اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں کئی بار دگنے سے بھی زیادہ اضافہ ہوا ہے-بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے لئے ملک کو اس سال 24 ارب ڈالر درکار ہیں جبکہ سٹیٹ بنک اعدادوں شمار کے مطابق اس وقت زرمبادلہ کے ذخائر کے ملکی ذخائر 13 ارب ڈالر ہیں -شہباز شریف کو حلف وزارت عظمی لیتے ہی آئی ایم ایف سے 6 ارب کےقرضے درکار ہونگے جو کہ ملک کے موجودہ سناریو میں ملتے دکھائی نہیں دے رہے ہیں -پاکستان میں معاشی نظم و نسق اس حد تک خراب ہو گیا ہے کہ معیشت ایک مالیاتی بحران سے دوسرے مالیاتی بحران کی طرف لپکتی ہے-اس مسئلے کی بنیادی وجہ قومی خزانے کا غیر ذمہ دارانہ استعمال اور ملکی معیشت میں موجود کچھ انتظامی مسائل ہیں جنہیں برے انتظامات اور ناقص گورننس نے مزید بڑھا دیا ہے-اس غیر موثر گورننس کے نتائج ہمیں معاشی عدم استحکام، آسمان کو چھوتی مہنگائی، ناقص عوامی خدمات، سماجی شعبوں کی مجرمانہ غفلت، وسیع پیمانے پر بدعنوانی، بجلی کی بندش، بڑھتی ہوئی بے روزگاری، بڑھتی ہوئی غربت اور بگڑتے ہوئے قرض پروفائل کی شکل میں نظر آتے ہیں- آئی ایم ایف پروگرام اپنی شرائط کے طور پر کچھ اصلاحات نافذ کرتا ہے لیکن جیسے ہی یہ پروگرام ختم ہوتا ہے تمام اصلاحات واپس لے لی جاتی ہیں-ملک کی معاشی ترقی میں بہت سے عوامل کار فرما ہوتے ہیں مگر دو عوامل ایسے ہیں جن کے بغیر کوئی ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ اور انہی دو عوامل کا پاکستان کے موجودہ معاشی بحران میں سب سے زیادہ کردار ہے۔ حکومت کے پاس پیسہ کمانے کے دو ذرائع ہوتے ہیں۔ پہلا ذریعہ آمدن ٹیکس وصولی اور دوسرا ذریعہ سرکاری ادارے جنھیں “سٹیٹ اونڈ ادارے ” کہا جاتا ہے- پاکستان میں ٹیکس کا نظام غیر موثر اور فرسودہ ہے جبکہ یہ سرکاری ادارے ملکی معیشت پر بوجھ ہیں- ان دونوں عوامل میں اصلاحات لانے کے لئے سخت فیصلے لینے ہوں گے-ان اصلاحات کا دار و مدار گڈ گورننس پر ہے-پاکستان میں حکومت کا خاطر خواہ ٹیکس ریونیو اکٹھا نہ کرنے کے پیچھے غیر موثر ٹیکس اصلاحات ہیں-بہت سے سروس سیکٹرز اور کاروبار آج بھی ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں- آج بھی زرعی آمدن پر انکم ٹیکس لاگو نہیں ہوتا جبکہ ملک میں ایک کثیر تعداد بڑے زمینداروں کی موجود ہے- ہمیں ٹیکس نیٹ کو بڑھانا ہو گا-وہ ملک جو قرضوں پہ چلتا ہو، ادھر ایسے ریفارمز کی سخت ضرورت ہے-بہت سے کاروبار حکومت کی جانب سے صارفین سے وصول کیے جانے والے سیلز ٹیکس حکومت کو پوری طرح ادا نہیں کرتے-اس طرف بھی توجہ دینا چاہیے- کاروباری حضرات اور ٹیکس حکام کی ملی بھگت اور سسٹم میں موجود خامیوں کی وجہ ٹیکس چوری ہوتا ہے- ٹیکس کے محکمے میں بھی ریفارمز کی شدید ضرورت ہے جس میں نئی بھرتیاں اور ریگولیٹری قوانین سر فہرست ہیں-کسی بھی معیشت کی ترقی کے لئے سیاسی حالات کا نارمل ہونا ضروری ہوتا ہے مگر شومئی قسمت ملکی سیاسی حالات دن بدن دگرگوں ہوتے جا رہے ہیں اور انتخابی عمل سے گزرنے کے بعد بھی بہتری کی کوئی سبیل نظر نہیں آ رہی ہے-ہماری اشرافیہ اقتدار کے حصول کے لئے کھوئی موئی میں لگی ہوئی ہے اور غربت اور مفلسی سے مارے بے کس و لاچار عوام دانے دانے کے محتاج ہیں اور فاقہ کشی پر مجبور ہیں-
الطاف چودھری
15.02.2024



Leave a Reply