نون لیگ پی پی پی اور متحدہ کا اتحاد-„جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائدار ہو گا“

مرکز میں پاکستان مسلم لیگ ن, پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے اشتراک سے حکومت بنانے کی کوشسیں جاری ہیں-متحدہ کے وفد نے لاہور میں مسلم لیگ کی قیادت سے ملاقات کی ہے اور بلاول ہاؤس لاہور میں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی قیادت نے حکومت بنانے کے لئے گفت و شنید کی ‏ہے-کہا جا رہا ہے کہ بات چیت حوصلہ افزا رہی ہے اور قائدین نے موجودہ سیاسی حالات کے پیش نظر ملک و قوم کے مفاد میں فیصلے کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے-مسلم لیگ کی مرکز میں 78 ، پی پی پی کی 54 , پی ٹی آئی کے آزاد کامیاب کی تعداد 92 , جبکہ متحدہ کی 17سیٹیں ہیں-سادہ اکثریت کے لئے 133 نشستیں درکار ہیں اور تینوں کو ملا کر 149 سیٹوں کے ساتھ سادہ اکثریت کا حدف حاصل ہو جاتا ہے اور آسانی سے اتحادی حکومت بن سکتی ہے-نون لیگ اور پی پی پی آزاد ارکان کی امیدیں بھی لگائے بیٹھے ہیں جس سے اتحادی حکومت کی عددی اکثریت مستحکم ہو جائے گی-اب دیکھنا یہ ہے کہ مسلم لیگ نون کو اس اتحاد سے کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا اور کیا فائدے اور نقصانات ہونگے-پہلی بات تو یہ ہے کہ باہمی طور پر اس اتحاد کی صورت میں آئینی عہدوں کیلئے شدید بارگیننگ ہوگی جس میں وزارت عظمیٰ, گورنرز, سپیکر اور ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی اور وفاقی وزارتیں شامل ہیں- پیپلز پارٹی اپنی پوزیشن کا فائدہ اٹھا کر مسلم لیگ ن سے کم سیٹس ہونے کے باوجود بیشتر آئینی عہدے اپنے پاس رکھنا چاہے گی- یہاں تک کہ گورنر سندھ جیسے عہدے کیلئے بھی پیپلز پارٹی کا میچ ایم کیو ایم کیساتھ پڑے گا- لیکن بڑی پارٹی ہونے کے ناطے وزارت عظمیٰ مسلم لیگ ن کے پاس رہنے پر اتفاق ممکن ہوگا-اس اتحاد کا فائدہ یہ ہو گا کہ تینوں پارٹیاں پرانی ہیں, ایک دوسرے کو سمجھتی ہیں, پی ڈی ایم حکومت میں بھی اشتراکی پارٹنرز رہ چکی ہیں, اسلئے سیاسی اختلافات کے باوجود آئینی مدت مکمل ہو پانے کی امید رکھی جا سکتی ہے-دوسرے: عدلیہ کے کاموں میں مداخلت کم سے کم ہوگی- سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججز کی خالی سیٹوں پر مناسب تعیناتیاں ہو سکیں گی-تیسرے: عمران خان کو سہولت کاری کے امکانات کم سے کم ہونگے- چوتھے: ترقیاتی منصوبوں پر سنجیدگی سے کام ہو سکے گا-پانچویں: بین الاقوامی تعلقات بہتر ہونگے جسکے لیئے نواز شریف یا شہباز شریف میں سے کسی ایک کا وزارت عظمیٰ کے عہدے کا ہونا ضروری ہوگا- بلاول کا وزیر خارجہ ہونا بھی بعید از قیاس نہیں اور اس میں کوئی حرج نہیں-چھٹے آئی ایم ایف, ورلڈ بینک, ایشین ڈویلپمنٹ بینک, اسلامک ڈویلپمنٹ بینک, یورپین یونین, فنانس کلبز, ایڈ ٹو پاکستان کنسورشیم اور دیگر مالیاتی ادارے تعاون کریں گے-ساتویں :سی پیک اور گوادر کیلئے چائنا اپنا تعاون جاری رکھے گا اور منصوبے تیزی سے تکمیلی مراحل مکمّل کریں گے- آٹھویں: سیکورٹی ادارے اپنا کام بہتر انداز میں جاری رکھ سکیں گے اور دہشتگردی کیخلاف مربوط حکمت عملی اپنائی جاے گی-اس اتحاد کے نقصانات یہ ہو سکتے ہیں کہ کسی بڑے اختلاف کی صورت میں تحریک عدم اعتماد کا خطرہ رہے گا- ملک ریاض کی سہولت کاری کیلئے پیپلز پارٹی دباؤ ڈالے گی-عمران خان کیلئے بھی پیپلز پارٹی نرم گوشہ رکھتی ہے- اسکے متعلق کابینہ میں مختلف فیصلوں میں بارہا اختلاف ہوتا بھی دکھائی دیگا-وفاق سے صوبوں کو این ایف سی ایوارڈ سے ہٹ کر مالیاتی فراہمی کا دباؤ رہیگا-اتحادی جماعتوں کی عدم ڈلیوری پر وفاق بھی شدید تنقید کی زد میں رہے گا-اور اگر وفاقی وزارت قانون ن لیگ کے علاوہ کسی دوسری اتحادی پارٹی کے پاس ہوئی تو عدالتوں کے کام میں مداخلت ہوگی اور سپریم کورٹ و ہائی کورٹ کے ججز کی تعیناتی کے معاملات شفافیت کا فقدان برقرار رہے گا جس سے مسلم لیگ حکومت کو مسائل کا سامنا رہے گا-اگر مسلم لیگ نون ان دونوں جماعتوں پی پی پی اور متحدہ سے مل کر حکومت بنانے میں ناکام رہتی ہے تو ‏پیپلز پارٹی, پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کے اشتراک کی صورت میں جو حکومت بنے گی وہ سب کچھ چوپٹ کر دے گی-عمران خان کی رہائی ہو جائے گی اور شاید وہ دوبارہ وزیر اعظم بن جائے اور ملک میں سیاسی اور معاشی ابتری کا پھر دور دورہ ہو جائے اور مسلم لیگیوں کے لئے پھر نہ ختم ہونے والا پکڑ دھکڑ کا سلسلہ شروع ہو جائے-

الطاف چودھری
13.02.2024

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*