
وطن کی باتیں… جرمنی سے
15 جون 2017
Goettingen, Germany
ahussai@t-online.de
Tel:-00491707929561
نواز شریف کٹہرے میں
پاناما کیس کی جے آئی ٹی نے ملک کے وزیر اعظم کو آج 15جون کو طلب کیا ہے اور انھیں سارا ریکارڈ بھی ساتھ لانے کا کہا گیا ہے- جے آئی ٹی ملک کی سب سے بڑی عدالت ( سپریم کورٹ ) کے حکم پر تشکیل دی گئی ہے جسکا مقصد شریف خاندان کی دولت کا پتہ لگانا ہے کہ وہ ناجائز ذرائع سے حاصل تو نہیں کی گئی ہے اور اس کے لۓ سرمایہ کس طرح حاصل کیا گیا اور کہیں منی لانڈرنگ تو نہیں ہوئی-
ملکی تاریخ میں یہ پہلی بار ہو رہا ہے کہ ملک کے سربراہ کو اس طرح پیشی کا حکم ہوا ہے-اس سے ملک میں دولت کے ارتقاء اور دولت کی مساوی تقسیم میں مددگار کا سبب ہو گا اور ملک میں کرپشن کے خاتمہ ہو گا- اب اگر ایسا فیصلہ ہو ہی گیا ہے تو یہ نہایت مناسب ہو گا کہ ان سیاست دانوں، سیاسی خاندانوں، بیورو کریٹس، ججوں، جرنیلوں، صحافیوں، غرضیکہ زندگی کے ہرطبقے سے تعلق رکھنے والوں کا احتساب ہو جن پر کسی نہ کسی حوالے سے مالی بدعنوانی، کرپشن ، اختیارات کے ناجائز استعمال اور قومی خزانے کی لوٹ مار کے الزامات ماضی یا حال میں لگائے جاتے رہے یا لگائے جارہے ہیں۔ مجرم ثابت ہونے پر انہیں اپنے جرم کی مناسبت سے قرار واقعی سزائیں بھی دی جائیں۔ اس طرح نہ صرف ملک کرپشن سے پاک ہوگا بلکہ الزام تراشی کی سیاست اور روایت کا بھی ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہو جائے گا جس نے عوام کے ذہنوں میں اچھے اور برے کے بارے میں الجھائو پیدا کر رکھا ہے۔ احتساب کا عمل شروع ہو ہی گیا ہے
محض پاناما لیکس یا ایک خاندان یا طبقہ تک محدود نہیں رہنا چاہئے بلکہ قوم کے تمام مجرموں کو اس کی گرفت میں لانا چاہئے – صرف پاناما لیکس میں 400 سے زیادہ لوگوں کا نام آیا تھا جن میں سے کسی ایک کے خلاف بھی ابھی تک کاروائی نہیں کی گئی اور سارے دنداناتے پھر رہے ہیں –
عمران خان جو خود کو دودھ سے نہایا دھویا کہتا ہے خود وہ بھی پانامی ہے- اسکی نیازی انٹرنیشنل اور اس کی بہنوں کی کمپنیوں کی انکوائری کب ہو گی- عمران خان کی اے ٹی ایم مشینیں جیسے جہانگیر ترین جس کی ماشاءاللہ دو پاناما کمپیناں ہیں کو بھی عدالت کے کٹہرے میں لایا جاۓ اور جرم ثابت ہونے پر قرار واقعی سزا دی جاۓ-
صرف شریف خاندان کی بے ترقیری سے کرپشن ختم نہیں ہو گی بلکہ سب چوروں کو کٹرے میں لانا ضروری ہے- تم کس کس کو پکڑوں گے یہاں تو سب کے سب چور ہیں- تقریبا سب-
الطاف چودھری
Leave a Reply