پاکستان کے قیام کے آغاز ہی سے پلاٹوں اور زمینوں کی الاٹمنٹ کی فہرست اگر نکال لی جائے تو آپ کو اس ملک کے لٹنے کی ایک ترتیب وار کہانی مرتب کرنے میں ذرا دیر بھی نہیں لگے گی-پہلی آئین ساز اسمبلی توڑنے والے گورنر جنرل غلام محمد کے دورِ اقتدار میں 1955ء میں پہلا کوٹری بیراج مکمل ہوا۔ فیلڈ مارشل ایوب خان جو نہ صرف آرمی چیف تھے، بلکہ اس سیاسی حکومت میں وزیر دفاع اور وزیر داخلہ بھی تھے، انہیں 500 ایکڑ زمین الاٹ کی گئی – الاٹمنٹ حاصل کرنے والوں کی فہرست میں بیوروکریٹ اور جج حضرات شامل ہیں۔ جب ایوب خان کے دور میں گدو بیراج مکمل ہوا، تو نوازشات کا رُخ انہی مہربانوں کی طرف گھوم گیا۔ جسٹس منیر جس نے ایوب کے مارشل لاء کو نظریۂ ضرورت کی چھتری فراہم کی تھی اسے 150 ایکڑ الاٹ ہوئے اور دیگر جج حضرات میں جسٹس ایس اے رحمن کو 150 ایکڑ، جسٹس انعام اللہ خان 240 ایکڑ، جسٹس محمد دائود 240 ایکڑ اور جسٹس فیض اللہ خان 240 ایکڑ۔
سیاستدانوں میں ملک خدا بخش بچہ 159 ایکڑ، خان غلام سرور خان 240 ایکڑ، امریکہ پلٹ وزیر خزانہ این ایم عقیلی 249 ایکڑ اور ساتھ ہی بیگم عقیلی کو بھی 251 ایکڑ، بیورو کریٹس میں مرزا غلام احمد قادیانی کے پوتے ایم ایم احمد کو 150 ایکڑ، سید حسن 150 ایکڑ، ایس ایم شریف 239 ایکڑ، این اے قریشی 150 ایکڑ دیئے گئے۔ ایوب خان کے اس شاہانہ رویّے سے جرنیل بھی مستفید ہوئے، پہلے ایوب خان نے ایک بار پھر خود 247 ایکڑ اپنے آپ کو الاٹ کئے، پھر جنرل موسیٰ کو 250 ایکڑ، جنرل امرائو خان کو 240 ایکڑ اور بریگیڈیئر سید انور 246 ایکڑ عطا ہوئے۔
یہ وہ سرا ہے جسے پکڑ کر ان لوگوں اور ان کے قبیل کے ہزاروں افراد کی جائدادوں، ملوں، فیکٹریوں، پلازوں اور کاروباری سلطنتوں تک پہنچا جا سکتا ہے۔ یہ تو آغاز کے لوگوں میں سے کچھ نام ہیں جنہوں نے اس مملکتِ خداداد پاکستان کو اپنی جاگیر سمجھنے اور اسے لوٹنے کی بنیاد ڈالی- یہ رشوت اور چور بازاری کا وہ سلسلہ تھا جو ایوب خان کے مارشل لاء سے بہت پہلے ہی اس ملک میں اپنی جڑیں مضبوط کر چکا تھا- لائسنس، کوٹے، ٹیکس میں چھوٹ، ایس آر اوز، برآمدی، درآمدی اشیاء کے اجازت نامے، کیا کچھ نہیں ہوا، لوٹ مار کی افراتفری میں کسی کو یاد تک نہ رہا کہ اس ملک میں ایک خطہ مشرقی پاکستان بھی ہے جو آخر کار ہم سے جدا ہو گیا۔ بھٹو کی حکومت آئی تو اس وقت اس ملک میں بائیس سرمایہ دار خاندان بہت مشہور تھے-Copied.
Leave a Reply