نا صرف پی ٹی آئی بلکہ پی پی پی اور عبوری حکومت بھی انتخابات سے کنی کترا رہی ہے-پی ٹی آئی تو لاہور ہائی کورٹ میں بھی چلی گئی تھی اور اسی کی درخواست پر حکم امتناعی جاری کر کے انتخابی عمل کو روک دیا گیا تھا-پی پی پی کی طرف سے انتخابات کا مطالبہ تو بہ تکرار کر رہی ہے مگر ہے ساتھ ہی پی ٹی آئی کی طرح اسے مشکوک بھی بنا رہی ہے- اب سوال یہ ہے کہ یہ دونوں جماعتیں کیوں چاہتی ہیں کہ انتخابات التوا کا شکار ہو جائیں؟ تحریک انصاف پے درپے مسائل کا شکار ہے اوراپنی عاقبت نا اندیشی، عاجلانہ طرز عمل اور غیر سیاسی رویوں کی وجہ سے اس نے دیکھتے ہی دیکھتے اپنی جماعت اور اس کا ڈھانچا تباہ کر لیا ہے- بیرسٹر گوہر خان کو عمران خان نے پارٹی کا چیئرمین بنا تو دیا ہے مگر ابھی سے اندازہ ہو رہا ہے کہ یہ صاحب ایک سیاسی جماعت سنبھالنے کی اہلیت نہیں رکھتے چہ جائیکہ پی ٹی آئی ان کی قیادت میں انتخابی معرکے میں کود سکے۔پی ٹی آئی کی دشواریاں دو ہیں، اول اس جماعت کا ڈھانچا شکست و ریخت کا شکار ہو چکا ہے اور دوم، اب اس کے پاس انتخابی بساط پر اتارنے کے لیے امیدوار بھی نہیں ہیں- اس جماعت کی طرف سے تاثر یہ دیا جا رہا ہے کہ اس کے امیدواروں کا رخ جبراً دوسری جماعتوں کی طرف موڑ دیا گیا ہے یا انھیں غیر سیاسی کر دیا گیا ہے-پاکستان پیپلز پارٹی کا معاملہ بھی بڑا دلچسپ ہے۔ یہ جماعت انتخابات کا مطالبہ کرتی ضرور رہی ہے لیکن اس کا معاملہ بھی پی ٹی آئی سے مختلف نہیں-سندھ میں اس کی سب سے بڑی دشمن اس کی کارکردگی ہے- وہ سندھ میں پندرہ برس تک بلا شرکت غیرے حکمران رہی ہے-اس کے دور میں صوبہ اور خاص طور پر شہری سندھ ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے۔سندھ میں پہلی بار اس جماعت کے سامنے حقیقی سیاسی چیلنج آ رہا ہے-پیپلز پارٹی کے مقابلے میں جو انتخابی اتحاد وجود میں آ رہا ہے، حالیہ تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا ہے اور یہ ایک حقیقی خطرہ ہے-اس خطرے نے پیپلز پارٹی کو دفاعی پوزیشن میں لا کھڑا کیا ہے-سندھ کی طرح پنجاب اور دیگر دو صوبوں میں پی ٹی آئی کی طرح اس کے پاس بھی انتخابی امیدوار نہیں ہیں-یہی سبب تھا کہ انتخابی عمل کو شکوک وشبہات میں مبتلا کیا جا رہا ہے-تیسرا عنصر عبوری اور نگراں نظام کا ایک انتہائی مختصر حصہ ہے جس کی خواہش ہے کہ اگر ان دنوں میں کچھ بڑھ سکیں تو اچھا ہو جائے-اس صورت حال میں چوتھا کردار ان دانش وروں کا ہے جو انتخابی شفافیت کے نام پر التوا کے ہتھکنڈوں کی تائید کرتے ہیں-ان دانش وروں کی طرف سے کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی انتخابات کا التوا تو نہیں چاہتی اصل میں وہ انتظامیہ کے بہ جائے عدلیہ کی نگرانی میں انتخابات چاہتی ہے-اس قسم کا موقف اختیار کرتے ہوئے یہ حقیقت فراموش کر دی جاتی ہے کہ 2013 میں بھی عدلیہ کی نگرانی میں انتخابات ہوئے تھے جسے آر او ز کا الیکشن قرار دے کر مسترد کیا گیا-اب عدلیہ عملہ فراہم کرنے سے انکار کر چکی ہے-ایسی صورت میں الیکشن کمیشن عملہ کہاں سے لائے؟ اسے دستیاب وسائل سے ہی عملہ حاصل کرنا ہے-اگر سول انتظامیہ درکار نہیں تو کیا ہمارے یہ دوست چاہتے ہیں کہ فوج یہ کام کرے جو خود کو اپنے آئینی کردار تک محدود کر چکی ہے-
الطاف چودھری
19.12.2023

Leave a Reply