ججز شتر بے مہار

وطن کی باتیں… جرمنی سے
04 جون 2017
Goettingen, Germany
ahussai@t-online.de
Tel:-00491707929561

ججز شتر بے مہار

عدلیہ کی آزادی کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ججز کو کھلا چھوڑ دیا جاۓ اور انھیں سب کچھ کہنے کرنے کی کھلی چھٹی دے دی جاۓ- پاکستان میں گاڈ فادر تو کیا ہر کوئی خدا بنا پھرتا ہے-سسلین مافیہ کی خبریں تو موٹی سرخ سیائی سے لکھی پڑہنے کو ملتی ہے مگر جج مافیہ جرنیل مافیہ جرنلزم مافیہ سے سارا ملک ڈر اور خوف سے دبکا بیٹھا ہے- یہ سارے ہی ملک میں انتشار اور انارکی پھیلانے کے ذمہ دار ہیں- آگر اسلام آباد میں فرشتوں کی حکومت بھی بن جاۓ تو یہ اسے بھی دوسرے دن نا اہل قراد دلوا دیں- ہوتا یوں ہے کہ کسی خریدے ہوۓ صحافی سے میڈیا میں ایک خبر لگوائی جاتی ہے اور واویلا مچایا جاتا ہے سو موٹو نوٹس کا ادھر فوج کو ملکی سلامتی کا واسطہ دیا جاتا ہے کہ دوڑو پکڑو ملک سلامیت کی بولی لگائی جا رہی ہے- پھر اس میں دشمن کے تنخواہ دار کچھ سیاست دان ہلا شیری کرتے ہیں اور حکومت اپنے بچاؤ کے لۓ کچھ الٹی سیدھی ترکیبیں کرتی ہے-اور جھٹ معاملہ گھنجلا ہو جاتا ہے اور ایسا لگنے لگتا ہے کہ ملک اب گیا کہ تب گیا- اور دشمن جو سرحد پر ہتھیاروں سے لیس کھڑا ہے ابھی اسلام آباد میں داخل ہوا چاہتا ہے-

مگر لگتا ہے کہ اب حکومت ڈٹ گئی ہے اور اس نے ملک کے جج مافیہ سے دو دو ہاتھ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے- مسلم لیگ کے سنیٹر جناب نہال ہاشمی کی نواز شریف کا حساب کرنے والوں کو انتباہی کے بعد حالات نے جو رخ اختیار کیا ہے وہ ملک و قوم کے لۓ کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے-

اگرچہ نہال ہاشمی کی ججوں کو دھمکی کے بعد نہ صرف ان کی پارٹی رکنیت سے معطل کر دیا تھا بلکہ ان سے سینٹ کی سیٹ سے استعفی بھی لے لیا گیا تھا مگر جیف جسٹس جناب ثاقب نثار نے سو موٹو لے لیا اور انھیں سپریم کورٹ میں پیشی پر بلایا گیا- پیشی کے دوران ججز کا رویہ ان کے ساتھ احسن نہیں تھا- سپریم کورٹ کے ایک جج جناب شیخ عظمت سعید نے اپنے ریمارکس میں حکومت کو سسلین مافیہ قرار دے دیا اور پاکستان کے اٹارنی جنرل کو اس مافیہ کا کارندہ کہا- اس پر حکومت کے ترجمان نے احتجاج کیا ہے اور اعلی عدالت کے ججوں کی جانب سے ایسے ریمارکس اچھا نہیں گردانا گیا-

عمران خان نے نہال ہاشمی کی اصلی جگہ جیل کو قرار دیا ہے- جناب اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ یہ سچ ہے کہ شریف خاندان ایک مافیہ ہے مگر ایک جج کو اس طرح کے ریمارکس نہیں دینے چاہے-

اس سے پہلے بھی جناب کھوسہ صاحب اپنے پاناما لیکس کے فیصلے میں گاڈ فادر کا ذکر کر چکے ہیں جو شاید شریف خاندان کو عرصہ تک ہضم نہ ہو- اور ہاضمہ کبھی بھی خراب ہو سکتا ہے- گاڈ فادر ایک ڈان تھا جو قتل و غارت اور دوسری ہر طرح کی مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث تھا اور آگر جج موصوف کو یہ معلوم ہو گیا ہے کہ کوئی مافیہ ہے تو ملکی قانون کے مطابق جیل کیوں نہیں دی گئی۔ مجرم کو صرف مجرم لکھ دینا ہی کافی نہیں ہے بلکہ اسے قرار واقعی سزا بھی ہونی ہوتی ہے۔ لگتا ہے جج صاحب کو صرف لکھنے تک کی ہی اجازت ہے اور باقی معاملات کسی دوسرے مافیہ کے ہاتھ میں ہیں۔

جج کو جج ہی رہنا ہو گا۔ جج خود نہیں بولتے ان کے فیصلے بولتے ہیں۔ کہتے تھے کہ جج اخبار نہیں پڑہتے ٹی وی نہیں دیکھتے اور لوگوں سے میل جول بھی نہیں رکھتے- برطانوی مجسٹریٹ اور اے سی ڈی سی کے بنگلے آبادی سے ہٹ کر اسی لۓ بناۓ جاتے تھے تا کہ یہ لوگوں سے تعلق نہ بنا سکیں جو بعد میں ان کے فیصلوں پر اثر انداز ہو۔

مگر زمانہ قیامت کی چال چل گیا ہے کسی کو بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس نہیں ہے- ہر کوئی بے لگام ہوا پھرتا ہے- جج بھی جرنیل بھی جرنلسٹ بھی جاگیردار ( سیاست دان) بھی- یہ صورت حال کسی بھی طرح ملک و قوم کی مفاد بھی نہیں ہے- کسی کو اپنی حد سے تجاوز نہیں کرنے دینی چاہے اس کے لۓ ملک میں آئین موجود ہے اور آئین کے منکر کی ایک سزا متعین ہے-

سیدھے ہو جاؤ ورنہ تمہیں اس ملک کے حقیقی وارثوں جو یہاں کے عوام ہیں سے کوئی نہیں بچا سکے گا- انسان بنو ورنہ تمہیں جانورں سے بھی بدتر بنا دیا جاۓ گا-

الطاف چودھری

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*