بچوں سے جبری مشقت

‎معصوم بچوں اور بچیوں سے نوکری اور مزدوری “ کرانا ہمارا ایک بہت بڑا المیہ بنتا جا رہا ہے۔معصوم بچوں اور بچیوں کو نوکریاں دلانا باقاعدہ ایک کاروبار بن گیا ہے۔ یہ ایک مافیا ہے جو چند پیسوں کی خاطر اس ظلم کے کاروبار کو جاری رکھنے میں ملوث ہے۔ لیکن اس ظلم میں بنیادی کردار ان والدین کا ہے جو اپنے معصوم بچوں اور بچیوں کو گھروں سے لا کر اس مافیا کے سپرد اس لئےکرتے ہیں کہ ان کو ہرماہ چند روپے ملتے رہیں۔ان معصوموں پر کیا گزرتی ہے ان ظالموں کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔جب والدین کوہی اپنے معصوم بچوں پر ترس نہیں آتا تو کسی اور کو بھلا کیا ترس آئے گا۔
‎ایسے والدین کا زیادہ تر تعلق جنوبی اور کچھ کا وسطی پنجاب سے ہوتا ہے۔ ایسے ظالم والدین کا موقف یہ ہے کہ وہ نہایت غریب ہیں۔ بچوں کو روٹی تک نہیں کھلا سکتے۔ خود بھی اکثر بے روزگار ہوتے ہیں اس لئےبچوں سے لوگوں کے گھروں میں نوکریاں کراتے ہیں۔ جہاں بچوں کو پیٹ بھر کر روٹی ملتی ہے اور ہمیں ہر مہینے کچھ پیسے ملتے ہیں جن سے ہماری بھی روزی روٹی کا کچھ انتظام ہو جاتا ہے۔ یہ کتنی بے تکی بات اور غیر منطقی دلیل ہے۔ اس لئے کہ اگر چادر کو دیکھ کر پائوں پھیلائے جائیں۔ آبادی کو کنٹرول کیا جائے تو ملک، قوم اور فرد بہت ساری معاشی مشکلات سے بچ سکتے ہیں۔ اگر یہی صورت حال جاری رہتی ہے تو ماہرین کے مطابق آنے والے سالوں میں بے روز گاری ، معاشی مسائل، بدامنی اور صحت کی سہولتوں کے فقدان میں ایسا اضافہ ہو جائے گاکہ جس پر قابو پانا کسی کے بس میں نہیں رہےگا۔ہم آبادی پر کنٹرول نہ کرکے ان پڑھوں اور جرائم پیشہ یا مجرمانہ ذہن رکھنے والوں کی تعداد میں خود اضافہ کر رہے ہیں۔ ہمارا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہم کبھی بھی اپنی کسی غلطی کو تسلیم نہیں کرتے بلکہ اس کیلئے بے تکے دلائل کا سہارا لینے کی کوشش کرتےہیں۔ بہت سے اپنے پیدا کردہ مسائل کے حل کی ذمہ داری حکومت وقت پر ڈالتے ہیں۔
Copied…

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*