
وطن کی باتیں… جرمنی سے
23 مئی 2017
Goettingen, Germany
ahussai@t-online.de
Tel:-00491707929561
ٹرمپ کا دورہ سعودی عرب
کل امریکہ کے صدر جناب رونلڈ ٹرمپ نے سعودی عرب کا دورہ کیا- امریکن روایات کے مطابق ہر نیا امریکن صدر بیرونی دورے کرتا ہے مگر آج تک یہی روایت رہی ہے کہ وہ اپنے پڑوسی ممالک جیسے کینیڈا اور یورپی ممالک اور اس کے بعد وہ روس کا دورہ کرتا تھا- مگر آج پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ کوئی امریکی صدر اپنا پہلا دورہ سعودی کا کر رہا ہے- ایک لحاظ سے یہ غلط بھی نہیں ہے سعودی عرب کی امریکہ میں بہت سے انوسمنٹ ہے اور یہ امریکن اسلحے کا بہت بڑا خریدار ہے- سابق صدر اوباما کے دور میں بھی 110 بلین ڈالر کے سودے ہوۓ تھے اور اب ٹرمپ تقریبا 486 بلین ڈالر کے سودوں پر دستخط کر رہے ہیں- اس لۓ ٹرمپ کا دورہ سعودی عرب اس کی ایک اچھی حکمت عملی ہے- دوسری طرف سعودی عرب ایران کو تباہ کرنے کے درپے ہے اور اسے امریکہ کی مدد کی ضرورت ہے-
امریکن صدر کا ریاض میں والہانہ استقبال کیا گیا اور شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے انھیں خود خوش آمدید کہا اور انہیں سعودی عرب کے سب سے بڑے اعزاز سے نوازا گیا-
امریکن صدر کے اس دورے کے موقع پر وہاں 34 اسلامی ممالک کے سربراہان بھی مدعو تھے جس اکٹھ کو امریکن عرب اسلامک سمٹ کا نام دیا گیا ہے-پاکستان کی نمائیندگی ملک کے وزیر اعظم جناب نواز شریف صاحب نے کی ہے-
صدر ٹرمپ کا خطاب ان کے مسلم مخالف جذبات سے ہٹ کر تھا- انھوں نے اپنے خطاب میں اسلامک ایکسٹریم ازم کا لفظ استعمال کیا جبکہ وہ اس سے پہلے ہمیشہ اسلامک ٹیرورزم کا لفظ استعمال کرتے رہے ہیں-
اپنے خطاب میں انھوں نے ایران پر کڑی تنقید کی اور اسے ایک دہشت گرد ملک قرار دیا- انھوں نے اسے علاقے میں فساد کی جڑ قرار دیا اور تمام اسلامی ملکوں کو اس سے لاتعلقی کرنے کو کہا- امریکن صدر نے حزب اللہ اور حماس کو دھشت گرد تنظیمیں قرار دیا حالانکہ یہ دونوں تنظیمیں دہشت گرد نہیں ہیں- اپنے خطاب میں انھوں نے بھارت کو دہشت گردی سے متاثر ملک قرار دیا اور دھشگردی کے خلاف انڈونیشیا قطر بحرین مصر کی کوششوں کو سراہا-
بھارت دہشت گردی سے متاثر ملک نہیں ہے بلکہ خود ایک دہشت گرد ملک ہے اور ایک لاکھ سے زیادہ کشمیریوں کا قاتل ہے-اس نے جموں کشمیر جونا گڑہ اور حیدر آباد پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہے- کشمیر پر اس کے مظالم کی پوری دنیا واقف ہے اور سراپا احتجاج ہے-
یہاں وزیر اعظم پاکستان اور دھشتگردی کے خلاف پاکستان کی کاوشوں کو نظر انداز کیا گیا اور حثیت کے مطابق پزیرائی نہیں ملی- ایسا کیوں کیا گیا؟ کیا یہ کوئی اتفاق تھا یا پاکستان کو یمن میں اپنی فوجیں نہ بھیجنے کی وجہ سے انہیں جان بوجھ کر نظر انداز کیا گیا ہے- لگتا کچھ ایسا ہی ہے-کہ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کچھ کچھ ناراض ہیں- اور حالات اور بھی بدترین صورت اختیار کر سکتے ہیں- حالانکہ دوسروں کی جنگ میں نہ کودنا ایک اچھی حکمت عملی ہے – اپنے دوستوں اور محسنوں کا ضرورت کے وقت ساتھ دینا پڑتا ہے ورنہ دوستیاں ختم ہو جاتی ہیں اور تعلقات متاثر ہوتے ہیں – فوج بھیجنا اور بات ہے مگر دوست کی مدد اور بھی طریقوں سے ہو سکتی ہے اور میری راۓ میں ضرور کرنی چاہۓ دوست بناتے عرصے لگتے ہیں اور اس وقت پاکستان کو دوستوں کی ضرورت ہے- شروعات ہو گئی ہیں جنرل راحیل شریف وہاں پر بیٹھے ہیں فوج بھی وہاں چلے ہی جاۓ گی خواہ وہ ریٹائرڈ فوجیوں ہی کی کیوں نہ ہو- دوسری طرف عربوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہۓ کہ ان کے لۓ اگر کوئی اپنی جان دے سکتا ہے تو وہ پاکستان مسلمان فوجی ہی ہو سکتا ہے کوئی اور ایرا غیرا نہیں- نا امریکی نہ ہنود اور نہ یہود-
الطاف چودھری
Leave a Reply