
“30 جون کو آئی ایم ایف نے پاکستان کے ساتھ تین ارب ڈالر کے معاہدے کا اعلان کردیا۔ اگر یہ معاہدہ نہ ہوتا تو شہباز شریف کی سیاسی بقا خطرے میں پڑ جاتی اور مخالفین انہیں پاکستان کی معاشی تباہی کا ذمہ دار قرار دیتے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے بعد پاکستان کے ڈیفالٹ کا خطرہ ٹل گیا ہے۔ اس معاہدے سے عوام کی معاشی مشکلات میں فوری کمی کا امکان نظر نہیں آتا لیکن معیشت کی بحالی کا ایک موقع پیداہوگیا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کا کریڈٹ آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری سمیت اپنی پوری ٹیم کو دیا ہے۔ پچھلے ایک سال کے دوران پاکستان میں جو ہوا اور پاکستان کے ساتھ جو ہوا اس نے عالمی سیاست میں بھی پاکستان کا کردار متعین کردیا ہے۔ اپریل 2022ء میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے تحریک انصاف کی حکومت کو ہٹایا گیا تو شہباز شریف کو ایک امپورٹڈ حکومت کا وزیر اعظم قرار دیا گیا۔ سابق وزیر اعظم عمران خان نے امریکی سازش کا ایسا واویلا مچایا کہ عوام کی بڑی اکثریت کو واقعی سابق وزیر اعظم مظلوم لگنے لگے کیونکہ نئی حکومت نے آتے ہی آئی ایم ایف کے دبائو پرپٹرول اور بجلی کے نرخوں میں اتنااضافہ کردیا کہ پاکستانیوں کی چیخیں نکل گئیں۔ شہباز شریف کو آئی ایم ایف کی وہ شرائط پوری کرنا پڑیں جو عمران خان کی حکومت نےطے کی تھیں۔ ستم ظریفی یہ تھی کہ خان صاحب ایک طرف امریکی ساز ش کا ڈھنڈورا پیٹتے رہے اور دوسری طرف انہوں نے ترین صاحب کے ذریعہ پوری کوشش کی کہ آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان معاملات طے نہ ہوں۔ یہ نکتہ اہم ہے کہ امریکا کی طرف سے پاکستان کی نئی حکومت کی مشکلات کم کرنے کی کوئی کوشش نظر نہیں آئی۔ امریکا نے پچھلےسال سیلاب سے متاثرہ افراد کو امداد مہیا کی لیکن آئی ایم ایف میں اپنااثر و رسوخ استعمال نہیں کیا جس سے پاکستان میں اس تاثر کو تقویت ملی کہ امریکا کی طرف سےپاکستان کو بلیک میل کیا جا رہا تھا۔ اس صورتحال میں ایک طرف چین پاکستان کی مدد کو آیا اور دوسری طرف پاکستان نے تیل اور بجلی کے حصول کےلئے روس اور ایران سے رجوع کرلیا۔ دلچسپ پہلو یہ تھا کہ جس حکومت کو عمران خان نے امریکی گماشتہ قرار دیا وہ حکومت چین، روس اور ایران کے قریب ہوگئی اور دوسری طرف امریکا میں زلمے خلیل زاد جیسے پاکستان مخالف عناصر عمران خان کے حق میں بیان بازی کرنے لگے-“
Copied…
Leave a Reply