ہندوتوا اور نازی ازم

ہندوتوا اور نازی ازم

اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت ایک فسطائی اور ایک انتہا پسند ریاست ہے جو ہندوتوا کے فروغ کے لئے ہر حد کو پار کرتی جارہی ہے انسانی حقوق کی بدترین پامالی جتنی بھارت کررہا ہے شاید ہی دنیا کے کسی اور ملک میں ہورہی ہو۔ بھارت میں جو ظلم دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کے ساتھ اور مظلوم کشمیریوں کے ساتھ ہورہا ہے،اس کی دنیا میں کہیں اور مثال نہیں ملتی۔بھارت نے نازی ازم کو دوبارہ زندہ کردیا ہے ہٹلر بھی یہودیوں سمیت دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کے خلاف تھا ، اسی کی پیروی بھارت بھی کررہا ہے۔ لیکن افسوس کہ امریکہ سمیت دیگر عالمی طاقتوں کو نہ تو بھارت کا غیر ہندوئوں پر ظلم نظر آتا ہے نہ ہی بھارت اور مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین پامالی نظر آتی ہے۔ پاکستان نے جو ڈوزئیر اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں کے سامنے پیش کیا ،اس پربھی انسانی حقوق اور پڑوسی ممالک کے اندر عدم مداخلت کے نام نہاد علمبرداروں کے کانوں پرجوں تک نہیں رینگی۔یہ دنیا میں ان عالمی طاقتوں کی کھلی منافقت نہیں تو اور کیا ہے۔
گزشتہ کافی عرصہ سے بھارت میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کا راج ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ بی جے پی ایک انتہا پسند جماعت ہے۔ جو آر ایس ایس نامی ذیلی دہشت گرد تنظیم کے زیر اثر ہے۔ ہندوتوا کا فروغ اس تنظیم کی بنیاد ہے۔ اور بی جے پی کواسی بنیاد پر دوبارہ اقتدار ملا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ آر ایس ایس نازی ازم کی پیروکار ہے جس کا وہ متعدد بار کھل کر حتیٰ کہ اپنی تحریروں میں بھی اظہار کرچکی ہے۔ اس سے اندازہ لگائیے کہ ایسی تنظیم جو بھارت میں ہندوئوں کے علاوہ دیگر کسی مذہب کو برداشت نہ کرتی ہو اور ہندوتوا کے فروغ کے لئے نازی ازم کی حامی ہو اس ملک میں دیگر مذاہب والوں کا کیا حال ہوگا اور انسانی حقوق کس سطح پر ہونگے ۔اب تو بھارت میں یہ حالت ہوگئی ہے کہ وزیر اعظم نریندرمودی کو ہٹلر سے کھل کر تشبیہ دی جاتی ہے۔ اور یہ تشبیہ درست بھی ہے کیونکہ ہٹلر کی طرح نریندرمودی بھی نسل پرستانہ نظریات اور متعصب سوچ رکھتے ہیں۔ اور یہ بھی کہ وہ اسی دہشت گرد، متعصب اور نسل پرست تنظیم کا بنیادی رکن ہے جس کا نام راشٹریہ سیوک سنگھ آر ایس ایس ہے۔
نام نہاد جمہوری ریاست بھارت کا سربراہ جب خود ایسی تنظیم کا بنیادی رکن ہو اور خود ان کی اپنی سوچ بھی اس بات پر پختہ ہوکہ بھارت صرف ہندوئوں کا ملک ہے اور دیگر مذاہب کے لوگوں کو وہاں سے یاتو نکل جانا چاہئے یا پھر ان کو کچل د یاجائے تو کیا پھر اس ریاست کو جمہوری تسلیم کرنا چاہئے کیا وہاں انسانی حقوق کے احترام کی امید رکھنی چاہئے۔ یہ عالمی طاقتوں اور پوری دنیا سے سوال ہے۔ اسی سوچ کے تحت مقبوضہ کشمیر میں مظلوم کشمیریوں پر گزشتہ دس دہائیوں سے زیادہ عرصہ سے ظلم وجبر کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں۔نریندر مودی کی گزشتہ سرکار سے لے کر موجودہ دور حکومت میں تو کشمیریوں پر ایسے ایسے مظالم ہوئے اور ہورہے ہیں جن کی جدید دور میں ہٹلر کے علاوہ اور کوئی مثال نہیں ملتی۔ مودی کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ہندو عقیدےکے مطابق یہ ہٹلر کا دوسرا جنم ہے۔ دنیا کے سامنے بھارت کی بدمعاشی اور دہشت گردی روز کا معمول بن چکا ہے۔ کشمیریوں کوان کا بنیادی حق جو بھارتی آئین میں درج تھا اور اسی بنیاد پر کشمیر کو خصوصی حیثیت حاصل تھی سے مودی سرکار نے محروم کردیا۔ یہ انسانی حقوق کو کچلنے کا بہت بڑا واقعہ بلکہ واردات تھی۔ لیکن انسانی حقوق کی نام نہاد علمبردار ریاستوں نے اس پر بھی مجرمانہ خاموشی کو نہیں توڑا۔
بھارت میں ان کی سوچ کے مطابق سوائے اونچی ذات کے ہندوئوں کے اور کوئی بھی محفوظ نہیں۔دلتوں کے ساتھ جو ناروا سلوک ان کے اپنے ملک میں روا رکھا جاتا ہے وہ خود بھارت کے نام نہاد انسانی حقوق اور جمہوری ریاست کے جھوٹے دعووں کا عکاس ہے۔ بھارت میں بی جے پی اور آر ایس ایس تنظیم مسلمانوں کو دشمن اول سمجھتی ہے۔ لیکن اس دہشت گرد جماعت اور تنظیم کے ہاتھوں نہ تو سکھ محفوظ ہیں نہ عیسائی اور دیگر مذاہب کے لوگ ۔ بھارت میں منی پور کے حالیہ واقعات اس کی تازہ ترین مثالیں ہیں۔ جہاں عیسائیوں کو باغی قبائل کانام دے کر ان کا قتل عام کیا جارہا ہے۔ ان کے گھر اور دکانیں جلائی جارہی ہیں۔ ذرائع کے مطابق اب تک وہاں ایک سو سے زائد افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوچکے ہیں جبکہ ہزاروں لوگ غیر محفوظ کیمپوں میں محصور ہیں۔ کرفیو نافذ ہے۔ مواصلاتی نظام بند ہے ۔ اسکول، دفاتر اور دکانوں پرتالے لگے ہوئے ہیں۔ خوراک اور پینے کے پانی کی شدید قلت پیدا ہے اسپتالوں تک رسائی بھی مسدود ہے۔ یہ صورتحال بھارتی ریاست منی پور کی ہے۔
ادھر تازہ ترین اطلاعات یہ ہیں کہ بھارتی ریاست اترا کھنڈ جہاں بی جے پی کی حکومت ہے وہاں پر بھی حالات کشیدہ ہورہے ہیں اور خدشہ ہے کہ وہاں منی پور سے بھی حالات زیادہ خراب ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ وہاں بی جے پی کی حکومت ہے اور ذرائع کے مطابق حکومتی آشیرباد سے آر ایس ایس کے غنڈوں نے مسلمانوں کے خلاف ایک منصوبہ تیار کیا ہے۔ اترا کھنڈ کےضلع اترکاشی میں ایک ہندو لڑکی کے اغوا کے جھوٹے اور من گھڑت الزام میں مسلمانوں کے خلاف سخت کارروائی کا منصوبہ ہے۔ اس جھوٹے الزام کو بنیاد بناکر آر ایس ایس کے غنڈے علاقے میں دندناتے پھررہے ہیں اور مسلمان دکانداروں کو15جون تک اپنے کاروبار سمیٹنے اور دکانیں خالی کرنے کا الٹی میٹم دے رکھا ہے۔ جس سے پوری ریاست میں تنائو کی کیفیت ہے اور یہ بھی کہاگیا ہے کہ اگر مسلمان دکانوں اور اس علاقے کو خالی نہیں کرتے توان کا قتل عام کیا جائے۔جس سے پوری ریاست اور بالخصوص اترکاشی ضلع میں خوف کا عالم ہے۔ بی جے پی اور آر ایس ایس کے غنڈوں نے پورے بھارت اور مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کو بالخصوص اور باقی مذاہب کے ماننے والوں کو یرغمال بناکر ان کا جینا حرام کررکھا ہے اور یہ سب کچھ ہندوتوا کے فروغ اور نازی پالیسی کے تحت کیا جارہا ہے لیکن دنیا سورہی ہے۔
copied….

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*