
“ایک نظریے پر قائم کی جانے والی مملکت اس وقت کسی بھی نظریے پر قائم نہیں ہے۔ بزعم خود سیاسی جماعتیں نظریات سے بالکل عاری ہیں۔ کسی جماعت کے سربراہ کی تقریر سے اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ پاکستان کو کس راستے پر لے جانا چاہتے ہیں۔پاکستان کی معیشت کو وہ کن خطوط پر لے جانا چاہتے ہیں۔ نظریات سے خالی اس سیاسی کشمکش میں عوام چکی کے دونوں پاٹوں میں پس رہے ہیں۔ ہر روز غربت کی لکیر سے نیچے مزید لاکھوں جارہے ہیں۔ ریاست کے والیوں کو ذرا سی تشویش نہیں ہے کہ ان چھ ساڑھے چھ کروڑ انتہائی غریب ہم وطنوں کے دن رات کیسے گزرتے ہیں۔ ایک بار مفت آٹا بانٹ کر وہ سمجھتے ہیں کہ ان کا پورا سال اسی 5سے 10 کلو کو گوندھتے، پیڑے بناتے گزر جائے گا۔ آٹے کی تقسیم اتنے ناقص اور ظالمانہ طریقے سے کی جارہی ہے کہ بہت سی قیمتی جانیں آٹے کے حصول میں موت سے ہمکنار ہو چکی ہیں۔ کسی حکمراں نے ان مرنے والوں کے گھر جاکر اظہارِ ہمدردی کرنے کی زحمت نہیں کی ہے۔ اور نہ ہی جہاں یہ موت واقع ہوئی ہے۔ وہاں کے ذمہ دار ڈپٹی کمشنر۔ ایس ایس پی کے خلاف کوئی کارروائی کی ہے۔ اکیسویں صدی میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دَور میں پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس، پاکستان پولیس سروس اور پی ڈی ایم کی حکومت کوئی محفوظ بندوبست نہیں کر سکی ہے۔ حکمرانوں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ لوگوں کو ضروری اشیا ان کی قوت خرید کے اندر فراہم کریں۔ مقامی کرنسی بالکل بے قدر نہ ہو۔ قرضوں کا بوجھ زیادہ نہ ہو۔ رعایا کو نقل و حرکت میں رکاوٹیں نہ ہوں۔ روزگار کی ضمانت ہو۔ علاج معالجہ معیاری ہو اور بلا معاوضہ ہو۔ تعلیم کے حصول میں مشکلات نہ ہوں۔ اگر یہ سب کچھ نہیں ہو رہا ہے تو حکمرانوں کے نا اہل ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہو گا۔”
Copied….
Leave a Reply