قاضی عطا بندیال اور اس کے ساتھی ججوں نے پانی میں مدھانی ڈال دی ہے-ملک کا اللہ حافظ-

قاضی عطا بندیال اور اس کے ساتھی ججوں نے پانی میں مدھانی ڈال دی ہے-ملک کا اللہ حافظ-

اگر ملک بچانا ہے تو پارلیمنٹ کی بالا دستی قائم کرنا ضروری ہے-پارلیمنٹ تمام اداروں کی ” ماں ” ہے اور ملکی ہر ادارہ خواہ وہ فوج ہو یا عدلیہ پارلیمنٹ کو جواب دہ ہے-جسٹس عطا بندیال ، منیب اختر اور اعجازالحسن کا فیصلہ دھکہ شاہی ہے جو کہ قوم کو منظور نہیں ہے جسے حکومت نے مسترد کر دیا ہے-لگتا یہ ہے کہ معاشی شکنجے میں جکڑے ملک عزیز کو ایک ایجنڈے کے تحت تباہی کی دھکیلا جا رہا ہے-یہ بات غور طلب ہے کہ عوام کے مطالبہ کے باوجود جسٹس عطا بندیال نے فل بینچ کیوں نہیں تشکیل دیا ہے اور دو متنازیہ ججوں کو ساتھ بٹھا کر پنجاب میں الیکشن کمیشن کے انتخابات کے التوا کا فیصلہ کیوں مسترد کیا ہے-غور طلب بات یہ بھی ہے کہ سپریم کورٹ صوبہ خیبر پختون خواہ میں نوے دن میں الیکشن پر بضد نہیں ہے-پی ڈی ایم کے ترجمان حافظ حمد اللّٰہ نے کہا ہے کہ عدالتی فیصلے سے نظریہ سہولت کے ساتھ نظریہ محبت بھی جھلک رہا ہے اور اس فیصلے نے ملکی سالمیت کو خطرات سے دوچار کر دیا ہے-حافظ حمداللّٰہ نے مزید کہا کہ عدالت عظمیٰ نے انتخابات کا پورا شیڈول جاری کیا ہے جو الیکشن کمیشن کا کام ہے تو پھر نتائج کا اعلان بھی کر دے- ان کا مزید کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کو سپریم کورٹ میں ضم کردیا جائے؟ وزیر داخلہ رانا ثنا ء اللہ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بڑے مضر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں- عدالت عظمیٰ میں تقسیم میں ضد اور انا کا عنصر نظر آتا ہے- انہوں نے کہا کہ ملک پہلے بھی غلط عدالتی فیصلوں کی سزا بھگت رہا ہے- یہ فیصلہ قابلِ عمل نہیں ہے، مسترد کرنے سے بڑھ کر پارلیمنٹ میں فیصلہ کیا جائے گا-وزیر داخلہ نے کہا کہ سپریم کورٹ کو کابینہ کے فیصلے پر عمل کرنا چاہیے اسے روکنا مناسب نہیں ہے-آئین میں ایمرجنسی کا آرٹیکل موجود ہے، کہیں گیا نہیں-بہر حال الیکشن ہوتے نظر نہیں آ رہے ہیں- عطا بندیال کا فیصلہ پانی میں مدھانی ڈالنے کے مترادف ہے-’’ پانی میں مدھانی‘‘ کا محاورہ موجودہ ملکی صورت حال کا عکاس ہے – اس سے مراد ہے کہ جب تمام دلیلیں اور کوششیں بے نتیجہ ہوں- یعنی کہ لسی یا دہی میں مدھانی چلانے سے مکھن تو نکل آتا ہے مگر پانی میں جتنی دیر مدھانی چلا لیں نتیجہ کچھ نہیں نکلتا-ہماری عدلیہ کا بھی اس مدھانی جیسا حال ہے جو پانی میں چل رہی ہے اور اس کا کچھ فائدہ نظر نہیں آرہا- قصہ کوتہ مختصر الیکشن 8 اکتوبر کو ہی ہونے ہیں اور شاید دوبارہ بھی ملتوی ہو جائیں اور 2024 آ جائے-

الطاف چودھری
04.04.2023

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*