
“ایک طرف تو مجھے یہ احساس بھی ہے کہ میری نسل کو تاریخ کے کتنے بڑے
واقعات کے چشم دید گواہ ہونے کا موقع مل رہا ہے۔ سوویت یونین میں کمیونزم کا خاتمہ۔ دیوار برلن کا انہدام۔ چین کا سب سے بڑی معیشت بننا۔ اب امریکہ کا 20 سال بعد ناکام ہوکر واپس جانا۔ کووڈ 19 جیسی عالمگیر وبا میں ماہ و سال گزارنا۔
جب سفر اور سیاحت کی صنعت زبوں حال ہوگئی۔ کتنے لاکھ انسان دم توڑ گئے ۔دو سال سے دوسرے ممالک سے عازمین حج نہیں آرہے ہیں۔ عمرے کی سعادت نصیب نہیں ہورہی امریکہ نے جمہوری افغان مملکت کے قیام کے لئے ہزاروں ارب ڈالر خرچ کئے۔
اپنے بہترین دماغ کابل میں بٹھائے۔ دو طویل عشرے وقف کئے۔ یہ سب تاریخی مشاہدات ہیں۔ کیا ان سب سے میری نسل نے کوئی سبق سیکھا۔
میری تشویش یہ ہے کہ دیوار بہ دیوار ہمسایہ ہونے۔ منقسم خاندان آباد ہونے کے باوجود ہماری فکر۔ ہماری پالیسیوں۔ ہمارے انداز حکمرانی۔ سیاسی جماعتوں کے طریق سیاست۔ عام لوگوں کی طرز زندگی پر ان عالمی۔ علاقائی اور مقامی المیوں، ناکامیوں اور بحرانوں کا کوئی اثر نہیں ہے۔ ہم اب تک وہی جمہوریت اور آمریت۔
سیاستدان اور اسٹیبلشمنٹ کے تضادات میں الجھے ہوئے ہیں۔ ہم بڑے سرمایہ دار ملکوں کی منڈی تھے اور اب آن لائن سماج کے بعد ان کے لئے اور زیادہ منافع بخش مارکیٹ بن گئے ہیں۔”
Copied…
Leave a Reply