
لوگوں کا کہنا ہے کہ عمران خان کو خوف ہے کہ شہباز گل کہیں فوج مخالف مہم میں اُن کے کردار کو بے نقاب نہ کردیں۔ فوج کے افسران اور جوان اس مہم کی وجہ سے مشتعل ہیں۔ حالیہ کریک ڈاؤن کی وجہ بھی یہی ہے۔ درحقیقت تحریک انصاف کے حلقوں میں یہ خوف پایا جاتابھی ہے کہ اگر مسٹرگل کے سر پرکورٹ مارشل کی تلوار لٹکنے لگتی ہے تو وہ کہیں خوف کے مارے عمران خان کے خلاف وعدہ معاف گواہ نہ بن جائیں، بالکل جس طرح 1978 ء میں ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف قتل کیس میں اُس وقت کی وفاقی سکیورٹی فورس کے سربراہ، مسعود محمود وعدہ معاف گواہ بن گئے تھے۔
ایک طرف عمران خان نے شہباز گل کی رہائی کے لیے طوفانی پراپیگنڈا مہم شروع کررکھی ہے۔ اُنھوں نے الزام لگایا کہ اُن کے چیف آف سٹاف کو وحشیانہ تشدد اور ”جنسی حملے“ کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ دوسری طرف اُن کی اپنی پنجاب حکومت کے وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ قیدی کو کوئی گزند نہیں پہنچی۔ نیز پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیسن، اسلام آباد کے چوٹی کے ڈاکٹروں پر مشتمل پینل نے تصدیق کی ہے کہ اُن پر تشدد کا کوئی ثبوت نہیں ملا، اور یہ کہ وہ صرف ذہنی دباؤ کا شکار ہو کر لڑکھڑائے ہیں۔ عمران خان نے پنجاب حکومت کو ”حکم“ دیا ہے کہ مسٹر گل کو اڈیالہ جیل، پنجاب سے اسلام آباد پولیس کے حوالے نہ کرنے دیا جائے۔ لیکن یہ حکم عدالتی احکامات کی کھلی خلاف ورزی ہوتا جس کی پاداش میں وزیر اعلیٰ پنجاب، آئی جی پی، آئی جی پی جیل خانہ جات، ڈی آئی جی اور سپرانٹنڈنٹ اڈیالہ جیل پر توہین عدالت لگ جاتی۔ اور پھرجب وفاقی حکومت نے دھمکی دی کہ مسٹر گل کو اڈیالہ جیل سے لانے کے لیے رینجرز بھیجی جائے گی تو عمران خان نرم پڑ گئے۔ جب تمام حربے ناکام ہوگئے تو وہ ایک بکتر بند کار میں سوار ہوکرپمز کی طرف لپکے۔ تحریک انصاف کے حامی چیختے چلاتے اُن کے پیچھے تھے۔ اُنھوں نے ہسپتال پر ہلابولنے کی کوشش کی لیکن ڈیوٹی پر موجود پولیس سکیورٹی نے ایک بار پھر اُنھیں ناکام بنا دیا۔”
Copied…Sethi
Leave a Reply