
صدارتی الیکشن پاکستان 2018-آصف علی زرداری اپوزیشن کی تقسیم کے مرتکب ہو رہے ہیں-
ملک میں صدر کا انتخاب 4 ستمبر کو ہو گا- صدارتی الیکشن جیتنے کے لیے آئین کے مطابق پارلیمان کے دونوں ایوانوں اور چاروں صوبائی اسمبلیوں سے پچاس فیصد کی سادہ اکثریت یا 352 اراکین کی حمایت درکار ہو گی -قومی اسمبلی، سینیٹ اور چاروں صوبائی اسملبوں میں ارکان کی تعداد 1074 ہے لیکن چونکہ کچھ سیٹیں خالی ہیں تو اس وجہ سے اس وقت ارکان کی تعداد 1047 ہے اور آئین کے مطابق صدارتی انتخابات میں شمار ہونے والے ووٹوں کی تعداد 679 ہے- اسطرح سادہ اکثریت 337 بنتی ہے – اس وقت تحریک انصاف کے صدارتی ووٹ 317 کے قریب ہیں جبکہ مسلم لیگ نون کے ووٹ 205 ہیں اور اگر اس میں پیپلز پارٹی کے ووٹ شامل کر لیے جائیں تو دونوں جماعتوں کے ووٹوں کی تعداد بھی 317 کے قریب بن جاتی ہے- یوں تحریک انصاف اور مسلم لیگ نون، پیپلز پارٹی کے ووٹ برابر ہیں اس لئے فیصلہ آزاد ارکان اور چھوٹی جماعتوں کے پاس چلا جاتا ہے جس میں جے یو آی ، ایم کیو ایم ، جماعت اسلامی، تحریک لبیک، جمہوری وطن پارٹی اور رائے حق جیسی جماعتیں ہیں جن کے پاس ایک ایک، دو دو ووٹ ہیں- ان جماعتوں کے ووٹ 27 کے قریب ہیں جبکہ 20 آزاد ارکان ہیں – اگر اپوزیشن نے صدارتی الیکشن جیتنا ہے تو مولانا فضل الرحمان اور اعتزاز احسن میں سے ایک کو دستبردار ہونا پڑے گا ورنہ تحریک انصاف کے عارف علوی کے صدر پاکستان بننے کے امکانات واضع ہیں- پیپلز پارٹی اپوزیشن میں رخنے ڈال کر درپردہ حکومت کے ہاتھ مضبوط کر رہی ہے-اس سے پہلے وزیر اعظم اور پنجاب میں وزیر اعلی کے انتخاب میں بھی زرداری نے اپنے ووٹ سائیلنٹ کرکے عمران خان کی مرکز اور پنجاب میں حکومت بنوائی ہے اور اب بھگت رہے ہیں-ان اور محترمہ فریال تالپور پر نیب نے 95 ارب روپئے کی منی لانڈرنگ کا مقدمہ بنایا ہے اور یہ دونوں ان دنوں حفاظتی ضمانت پر ہیں -مسلم لیگ کسی طرح بھی اعتزاز احسن کے نام پر راضی ہونے پر آمادہ نظر نہیں آ رہی ہے – چوہدری صاحب نے محترمہ کلثوم صاحبہ کی عیادت کے سلسلہ میں جو موشگافیاں فرمائیں تھی مسلم لیگی بہت تپے ہوئے ہیں اور کسی صورت میں بھی انہیں ووٹ نہیں دینگے – چوہدری صاحب شاید اب بوڑھے ہو گئے ہیں اور سٹھیا گئے ہیں اس لئے اکثر بےتکی اور بھکی بھکی باتیں کرتے ہیں اور مفت میں دوستوں کو دشمن بنا لیتے ہیں – پہلے سوچوں پھر بولو- کیا چوہدری صاحب کو یہ بھی اب سمجھانا پڑے گا – مولانا فضل الرحمن کو سپورٹ کرنے پر پیپلز پارٹی راضی نہیں ہو رہی ہے-ان کا خیال ہے کہ مولانا صاحب کے مذہبی رجحانات کی وجہ سے بیرونی ممالک معترض ہیں – عقل کے اندھوں اس سے زیادہ اور اچھی بات کیا ہو گی جب اسلامی جمہوریہ پاکستان کا صدر ایک پکا سچا ایماندار اور راسخ العقیدہ مسلمان ہو گا – اگر اپوزیشن نے سمجھ داری کا ثبوت نہ دیا تو شومئی قسمت ملک کا صدر بھی تحریک انصاف کا ہی بنے گا-ملک کو لا دینی ہنودی یہودی فسطائی گماشتوں سے بچانا ہے تو محب وطن عناصر کو متحد ہونا ہو گا- متحد ہو جاؤ ایک ہو جاؤ- اسی میں ملک کی بقا ہے ورنہ سال در سال رونا تمہارا مقدر ہو گا-
الطاف چودھری
03.09.2018
Leave a Reply