مئی 9 جیسے واقعات میں جب عوامی احتجاج تشدد کی شکل اختیار کر لیتے ہیں، تو اس سے جمہوریت کا اصل مقصد متاثر ہوتا ہے۔ جمہوریت میں اختلاف رائے اور احتجاج کے لیے آزادی ہوتی ہے، مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ قانون شکنی، تشدد یا ریاستی اداروں کے خلاف کھلی دھمکیاں دی جائیں۔
علی امین گنڈاپور یا دیگر سیاسی رہنما جب اشتعال انگیز تقاریر کرتے ہیں، تو یہ صرف سیاسی ماحول کو گرما دیتے ہیں، بلکہ ان سے عوام کے اندر بھی عدم استحکام پیدا ہوتا ہے۔ ایسی بیانات سے ملک کے اندر سیاسی کشیدگی بڑھتی ہے اور لوگ قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی طرف مائل ہو سکتے ہیں۔
عدالتیں، جو جمہوریت کے ستون ہیں، ایسی دھمکیوں کو نظرانداز نہیں کر سکتیں کیونکہ یہ ریاستی اور عدالتی نظام کی حرمت کو چیلنج کرتے ہیں۔ اگر عدالتیں اس قسم کی دھمکیوں کے خلاف سخت اقدامات نہیں کریں گی، تو اس کا نتیجہ ایک ایسے نظام کی کمزوری میں نکلے گا جہاں قانون کی حکمرانی کمزور ہو جائے گی۔
مزید برآں، سیاسی رہنماؤں کی جانب سے دی جانے والی دھمکیاں یا سخت بیانات ان کے اپنے عہدے کے لیے بھی خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں اور “ایسی دھمکیوں کے سنگین نتائج ہوں گے”، اس کا مطلب ہے کہ وہ قانونی نتائج کا سامنا کر سکتے ہیں، چاہے یہ نااہلی ہو، گرفتاری ہو، یا دیگر قانونی کارروائیاں ہوں۔
یہ بہت ضروری ہے کہ سیاستدان، خصوصاً وہ جو حکومت میں اہم عہدوں پر فائز ہوں، ذمہ دارانہ رویہ اپنائیں اور جمہوری اقدار کو مضبوط کریں۔ بصورت دیگر، ایسی حرکتیں ملک کے استحکام اور ترقی کے لیے رکاوٹ بن سکتی ہیں۔
الطاف چودھری
30.09.2024

Leave a Reply