
جب منٹو نے برصغیر کی زندگی کی اندرونی گہرائیوں میں ڈوب کر اس حقیقت کا ادراک کرلیا کہ پاکستان کا قیام ایک اٹل حقیقت ہے تو وہ اپنے محبوب ترین شہر بمبئی سے ھجرت کرکے لاہور آ پہنچے. یہ متحدہ ھندوستانی قومیت سے جداگانہ پاکستانی قومیت کی جانب پیش قدمی تھی. منٹو کے ھاں پاکستان شناسی کے اس سفر کا اھم ترین سنگ میل قائد شناسی ھے. منٹو نے قائداعظم کی عظمت کردار کو اجاگر کرنے کی خاطر میرا صاحب کے عنوان سے جو خاکہ تصنیف کیا وہ ایک منفرد ادبی فن پارہ ھی نہیں بلکہ تاریخی کارنامہ ھے.
جس زمانے میں منٹو نے قائداعظم کی بے مثال انسانی خوبیوں کو اجاگر کرنے کی خاطر میرا صاحب لکھا اس زمانے میں ھمارا ادیب قائداعظم کے قابل رشک انسانی اوصاف کے اعتراف کو رجعت پسندی کی دلیل سمجھتا تھا.منٹو نے قائد اعظم پر لکھے گئے خاکہ میں لکھا قائداعظم ھمارے درمیان اٹھ گئے تو ھمیں ان کے احسانات ایک ایک کر کے یاد آ رھے ھیں. ان کا سب سے بڑا احسان یہ ھے کہ انہوں نے مسلمانوں کے احساس خودی کو جو بالکل مرنے کے قریب تھا ازسرنو زندہ کیا اور ھماری قومی شخصیت کو ایک نئی توانائی دی. دراصل جس دن ھم نے سمجھ لیا کہ ھم مسلمان ھیں. مسلمان ھونا شرم کی بات نہیں اور مسلمان کی حیثیت سے ھمارے کچھ سیاسی معاشی اور تہذیبی حقوق بھی ھیں جن کے لئے ھم جائز طور پر لڑ سکتے ہیں. اسی دن ھماری منزل آگئی تھی. اسی دن پاکستان بن گیا تھا.copied
Leave a Reply