“یہ ان پاکستانیوں کے مشابہ تھا جو سوچتے تھے کہ ان کا کرکٹ ہیرو کرپشن کا قلع قمع کرے گا، معاشیات کے میدان میں چھکا مارے گا اور حکومت کو فلاحی ادارے میں بدل دے گا، جس طرح اس نے کرکٹ سے ریٹائر ہونے کے بعد اپنی والدہ کے نام پر ہسپتال بنایا تھا۔ ہمارے کرکٹ ہیرو نے ٹی وی کی مکمل کوریج کے ساتھ کئی دن تک کنٹینر پر کھڑے ہوکر اپنے مداحوں کو محظوظ کیا۔ اپنے مخالفین کا مذاق اڑایا، کرپشن کے خلاف آواز اٹھائی اور دیومالائی وعدے کئے۔ وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے کے 48گھنٹوں کے اندر انھیں پتہ چل گیاکہ نواز شریف کے وزیر اعظم کے طور پر سرکاری رہائش گاہ پر سرکاری خزانے سے شاہانہ اخراجات کا ان کا اندازہ غلط تھا۔ نواز شریف نے اپنے اور اپنے خاندان کے ذاتی اخراجات کی ادائیگی کیلئے پوری ذمہ داری کے ساتھ چیک لکھے تھے۔ اس کے فوراً بعد انھیں وزیراعظم ہاؤس کو یونیورسٹی میں تبدیل کرنے کے وعدوں سے پھرنا پڑا۔ اگرچہ عوام نے سرکاری تقریبات کیلئے کیٹرنگ پر اخراجات میں کمی جیسے وعدوں کیلئے ان کی تعریف کی لیکن یہ جلد ہی عیاں ہو گیا کہ کھانے پینے کے اخراجات تو پاکستان کے بھاری خسارے کے سمندر کے سامنے ایک قطرے کی بھی حیثیت نہیں رکھتے۔ نیز رہائشی عمارت کو یونیورسٹی میں تبدیل کرنے پر بہت زیادہ اخراجات اٹھانا پڑ سکتے ہیں۔ غیر ملکی بینکوں سے’’کرپٹ پاکستانیوں کے اربوں ڈالر‘‘ واپس لا کر پاکستان کو اجتماعی طور پر دولت مند بنانے کے دعوے بھی اتنے ہی بے بنیاد ثابت ہوئے-ایسے تمام تجربات سے حاصل ہونے والا سبق یہ ہے کہ سیاست اور گورننس اتنا سنجیدہ معاملہ ہے کہ اسے اُن کی صلاحیتوں کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا جن کی شہرت محض عوام کو تفریح فراہم کرنے تک محدود ہو۔ یہ مزاحیہ اداکاروں، کھلاڑیوں یا ٹی وی، فلم کی شخصیات کا کام نہیں کہ وہ سیاست کے میدان میں قدم رکھیں۔ اگر ایسا ہوتو ان کا سیاسی طرزعمل اور مہارت دیکھی جائے نہ کہ ان کی شہرت۔ جیسا کہ مائیکل گیرسن نے اپنے کالم میں نوٹ کیا تھا، ’’شہرت یافتہ شخصیات کی بلندی حقیقی کی بجائے ظاہری صلاحیتوں کی مرہون منت ہوتی ہے‘‘
Copied…
Leave a Reply