قائدِاعظم کے چودہ نکات: اتحاد کی آخری کوشش

قائدِاعظم کے چودہ نکات: اتحاد کی آخری کوشش

“قائدِاعظم نے نہرو رِپورٹ سے مایوس ہوجانے کے بعد مارچ 1929ء میں مسلم لیگ کا اجلاس دہلی میں طلب کیا اور اُس میں سیاسی مصالحت کی خاطر مسلمانوں کی کم سے کم شرائط چودہ نکات کی شکل میں پیش کیں۔ اُن میں ’’تجاویزِ دہلی‘‘ بھی شامل تھیں۔ مسلم لیگ نے اپنے اجلاس میں نہرو رِپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے ایک قرارداد کے ذریعے چودہ نکات کی توثیق کی جن کے گرد سالہاسال مستقبل کی سیاست گھومتی رہی۔ وہ نکات درج ذیل تھے:(1) آئندہ دَستور وفاقی ہوگا جبکہ صوبوں کے پاس تمام بقیہ اختیارات (Residuary Powers) ہوں گے۔ (2) یکساں خودمختاری تمام صوبوں کو دی جائے گی۔ (3) ملک کے تمام منتخب اداروں میں اقلیتوں کی مؤثر نمائندگی کا اصول اپنایا جائے گا اور کسی بھی صوبے میں اکثریت کو اَقلیت یا مساوی نمائندگی میں تبدیل نہیں کیا جائے گا۔ (4) مرکزی قانون ساز اسمبلی میں مسلمانوں کی نمائندگی ایک تہائی سے کم نہیں ہو گی۔ (5) فرقہ وارانہ نمائندگی جداگانہ انتخابات کے اصول پر جاری رہے گی، البتہ تمام فرقوں کو مخلوط انتخابات کا آپشن استعمال کرنے کا اختیار بھی ہو گا۔ (6) اگر کسی وقت علاقائی ردوبدل کی ضرورت پیش آئے، تو بنگال، پنجاب اور صوبہ سرحد کے صوبوں میں مسلم اکثریت کسی بھی طور متاثر نہیں ہو گی۔ (7) مکمل مذہبی آزادی جس میں عقیدے کی آزادی، اُس کی اشاعت اور تبلیغ کی آزادی اور اُس پر عمل درآمد کی آزادی کی ضمانت تمام فرقوں کو دی جائے گی۔ (8) کسی بھی منتخب ادارے میں کوئی ایسا بِل یا ریزولیشن پاس نہیں کیا جائے گا جسے کسی فرقے کے تین چوتھائی ارکان اپنے مفادات کے لیے نقصان دہ سمجھتے ہوں۔ (9) سندھ کو بمبئی پریذیڈنسی سے علیحدہ کیا جائے گا۔ (10) دوسرے صوبوں کی طرح شمال مغربی سرحدی صوبے اور بلوچستان میں سیاسی اصلاحات نافذ کی جائیں گی۔ (11) دستور میں ایسی شقیں رکھی جائیں گی جو حکومت اور مقامی اداروں میں مسلمانوں کو دوسرے ہندوستانیوں کے مقابلے میں ملازمتوں میں معقول حصّہ دلانے کی ضمانت دیں گی۔ (12) دستور میں ایسے اقدامات کا تعین کیا جائے گا جو مسلمانوں کی ثقافت کو تحفظ فراہم کریں گے، مسلم تعلیم کو فروغ دیں گے، مذہب اور پرسنل لا کی حفاظت کریں گے، مسلمانوں کے خیراتی اداروں کو تقویت پہنچائیں گے اور رِیاست جو اَیسے اداروں کو گرانٹ دیتی ہے، اُن میں مسلمانوں کو بھی جائز حصہ دیا جائے گا۔ (13) کوئی ایسی مرکزی اور صوبائی کابینہ تشکیل نہیں دی جائے گی جس میں مسلم وزیروں کی تعداد ایک تہائی سے کم ہو۔ (14) مرکزی مقننہ آئین میں کوئی ایسی تبدیلی منظور نہیں کرے گی جس میں وفاق میں شامل اکائیوں کی رضامندی شامل نہ ہو۔“
Copied…

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*