
„ہماری بدحال معیشت دراصل ہمارے سیاسی
بحران کی عکاس ہے، جیسے ہی سیاسی بحران بڑھا، معیشت بھی بگڑتی گئی۔ اس وقت یقینا ایک بات بڑی مثبت ثابت ہو رہی ہے کہ خاں صاحب جو ایک پروجیکٹ کے طور پر اس قوم پر مسلط کیے گئے تھے ، جس کی وجہ سے یہ سیاسی بحران پیدا ہوا، ایک مخصوص سوچ اور مخصوص مفاد نے ایک ہو کر اپنے عزائم کو آگے بڑھایا، وہ اب بہت حد تک تھم چکا ہے ، اب ہم تعمیر نو کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔
مختصرا یہ کہ ان سب کو کیسے چارٹر آف معیشت کے پیج پر لایا جائے؟ اور کون سے بنیادی مقاصد ہیں، جن پر ان سب کو آن بورڈ ہونا پڑے گا؟ ہماری عسکری قوتوں تعداد کے بجائے ٹیکنالوجی بیسڈ اسمارٹ، برق رفتار اور کاری ضرب لگانے والی آرمی بنانا ہوگا، اگرغور کیا جائے تو ہماری اشرافیہ جو ہمارے سیاسی ڈھانچے پر براجمان ہے، جس طرح سے پارلیمنٹ کو کمزور کیا گیا، ایک مخصوص ٹولے نے آمریتی طرز کے اس سسٹم میں ایک اور مخصوص بیانیے کو جنم دیا اور یہ بیانیہ معیشت کی جڑوں میں چلا گیا۔
ایسا بیانیہ نہ بنگلہ دیش میں پایا جاتا ہے نہ ہندوستان میں، ہمارا یہ بیانیہ آمریت کے ساتھ جڑے مخصوص سیاسی اشرافیہ کے مفادات کی تقلید کرتا ہے۔ میثاق معیشت کو یہ باور کرانا ہوگا کہ اب احتساب سب کا ہوگا، وہ سیاستدان ہو، بیوروکریٹس ہوں، اربوں کھربوں کے مالک بزنس گروپس ہوں،ججز ہوں یا جرنیل ہوں۔
میثاق معیشت صرف یہ نہیں کہ کس طرح سے زر مبادلہ کے ذخائر بڑھائے جائیں، کرنٹ اکائونٹ کا خسارہ کم ہو۔ مارکیٹ فورسز میں Efficiency لائی جائے تاکہ رسد متاثر نہ ہو، ذخیرہ اندوز اس سے فائدہ نہ لے سکیں جس کے نتیجے میں افراط زر پر منفی اثر پڑے، لوگوں کی آمدنی متاثر ہوں۔
میثاق معیشت میں انسانی وسائل کو بہتر کرنا بھی شامل ہے، جس کو ایچ ڈی آئی کہا جاتا ہے، جو مجموعی پیداوار (جی ڈی پی) یا شرح نموکی طرح معیشت پرکھنے کا ایک پیمانہ ہے۔ ایچ ڈی آئی کے بانیوں میں ہمارے ڈاکٹر محبوب الحق کے علاوہ ڈاکٹر امریتا سین بھی ہیں، ان دونوں بڑے دماغوں کا تعلق ہمارے جنوبی ایشیا سے ہے۔ ڈاکٹر پاشا کی صورت میں اور ایسے بہت سے معیشت دان ہیں، ڈاکٹر قیصر بنگالی جن سے مستفید ہوا جاسکتا ہے۔
ہمارے پاس اس وقت صرف میثاق معیشت کی سمت باقی بچی ہے، جس سمت سے ہم اس ملک کو آگے نکال سکتے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے ایک دم سے غیر دستاویزی معیشت کو بہت تیزی سے دستاویزی کرنے کی کوشش کی تو بھی منفی اثر پڑے گا، لیکن مجموعی طور پے پالیسی واضع کی جائے ،اہداف حاصل کرنے کے لیے short term goal کیlong term goal سے مماثلت ہو ان کے بیچ۔ ٹکرائو نہیں ہونا چاہیے۔
اگرہم غور کریں توتاریخی اعتبار سے جس طرح کے ہم بجٹ بناتے رہے ہیں، اس میں سب سے زیادہ متاثر جو عمل رہا ہے وہ ترقیاتی کاموں کے لیے مختص کیے ہوئی رقم، اس میں بھی ہم کٹوتی کردیتے ہیں اس لیے میثاق معیشت کے لیے یہ بھی لازمی ہے کہ ہم بجٹ کے پیچھے موجود پالیسیوں میں تبدیلی لانی ہوگی۔
پاکستان کی تاریخ کا یہ سال معاشی اعتبار سے انتہائی بدترین نکلا۔ ہم نے دیکھا کہ پاکستان کی سیاسی اور آئینی اور قانونی تاریخ کا بھی یہ سال بدترین تھا پچھلے سال پاکستان میں بدترین سیلاب آئے اربوں ڈالر کا نقصان ہوا، بالخصوص ساؤتھ پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں۔ اس بربادی کی ذ مہ داری پوری کی پوری موجودہ حکومت پر نہیں ڈالی جاسکتی۔
ایک تو خان صاحب نے ان کے لیے بدترین مالی بحران چھوڑا، دوسرا پورا سال خان صاحب نے سیاسی عدم استحکام پھیلائے رکھا، اسی طرح عدالتوں میں بھی یہی افراتفری اور غیر یقینی صورتحال رہی۔ اس کے بعد کہیں جاکر موجودہ حکومت ذمے داری ٹھہرتی ہے۔
Copied…
Leave a Reply