ملکی معاشی صورت حال

‎پاکستان اس وقت زرمبادلہ کی شدید کمی کا شکار ہے-سٹیٹ بنک کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت ملکی زرمبادلہ 10 ارب ڈالر سے بھی کم سطح پر ہیں-مگر دوسری طرف حکومت کے غیر ضروری اخراجات پر سوال اٹھ رہے ہیں-پاکستان کی قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے جمعرات کو انکشاف کیا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے 600 سرمایہ داروں کو تین ارب ڈالرز کا قرضہ بلا سود یا بہت کم سود پر دیا-حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ قومی خزانے کا ضیاع جبکہ پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ اس قرضے سے ملک کی صنعت کو فروغ ملا-ملکی پارلیمان کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے جمعرات چھ اپریل کو کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے حکام کو بلا کر جرنیلوں، بیورو کریٹس، ججوں اور اراکین پارلیمنٹ کو رعایتی نرخوں پر پلاٹس دینے کے حوالے سے بھی سوال کیا- دوسری طرف ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے باوجود وفاقی حکومت نے 17 ایسی وزارتوں پر 700 ارب روپے سے زیادہ پیسہ خرچ کیا ہے جو آئینی طور پر اب صوبائی حکومتوں کے ماتحت ہیں-اس وقت بیرونی قرضوں کا حجم 115 بلین ڈالرز سے زیادہ ہے، جو اگلی دو دہائیوں میں چار سو بلین ڈالرز کے قریب پہنچ سکتا ہے-ملک میں مہنگائی عروج پر ہے جب کہ گزشتہ برس کے سیلاب کی وجہ سے 90 لاکھ سے زیادہ لوگ سطح غربت سے نیچے گر گئے ہیں- واضح رہے کہ کمیٹی کے اجلاس کے دوران نون لیگ کے ایم این اے برجیس طاہر نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ یہ چھ سو لوگ کون ہیں اور ان کی کیا تفصیلات ہیں-قومی اسمبلی کی قائمہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی برائے خزانہ کے چیئرمین قیصر احمد شیخ کا کہنا ہے کہ اس طرح کے قرضے قومی دولت کو ضائع کرنے کے مترادف ہیں-یہ قرضے کچھ مخصوص گروپ کو دیے گئے، جنہوں نے اپنے خاندان کے مختلف افراد کے نام پر یہ قرض حاصل کیا اور ایئر جیٹ مشینیں ٹیکسٹائل اور کچھ دوسرے سیکٹرز کے لئے مشینیں خریدی گئیں-“قیصر احمد شیخ کے مطابق یہ مشینیں اب بے کار پڑی ہیں: ”تین بلین ڈالر دے کر زرمبادلہ کے ذخائر کو بالکل تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا گیا-لاہور سے تعلق رکھنے والے معیشت دان ڈاکٹر قیس اسلم کا کہنا ہے کہ جس وقت یہ قرضہ دیا گیا تھا اس وقت شرح سود تقریبا چھ فیصد تھی: ”پھر 2021ء میں یہ تقریباﹰ 9.7 فیصد ہوگئی تھی اور اس وقت تقریبا 21 فیصد ہے- تو اگر 21 فیصد کی شرح سے پیسہ وصول کیا جائے، تو پاکستان کے زرمبادلہ میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے اور ملکی معیشت کو سہارا بھی مل سکتا ہے-خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں تمام حکومتیں اپنے پیاروں کو نوازتی ہیں اور ایسی پالیسیاں بناتی ہیں، جس سے صرف امیروں کو فائدہ ہو-کراچی سے تعلق رکھنے والی معیشت دان ڈاکٹر شاہدہ وزارت کا کہنا ہے کہ پاکستانی حکمراں بادشاہوں کی طرح حکومت کرتے ہیں اور افسر شاہی کا کوئی احتساب نہیں ہے-یہ تین ارب ڈالرز اس لیے دیے گئے کیونکہ اسٹیٹ بینک کے گورنرز کو بے تحاشہ اختیارات دیے گئے-جہاں حکومتی حلقے اور کچھ معیشت دان پی ٹی آئی کی اس پالیسی پر تنقید کر رہے ہیں وہی پی ٹی آئی اس کا دفاع کرتی ہوئی نظر آرہی ہے-
Copied…

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*