صدر مملکت کا وزیر اعظم کے نام خط!

صدر مملکت کا وزیر اعظم کے نام خط!

اتوار 26 مارچ 2023ء

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلی کے انتخابات کرانے کے معاملے پر وزیر اعظم شہباز شریف کو خط لکھا ہے۔ صدر مملکت نے خط میں دونوں صوبوں میں الیکشن کا انعقاد یقینی بنانے اور سیاسی کارکنوں کی گرفتاریاں روکنے پر زور دیا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کو خط کے ذریعے کہا گیا ہے کہ وفاقی و صوبائی حکومتوں کے متعلقہ حکام کو دونوں صوبوں میں مقررہ وقت پر عام انتخابات کے لئے الیکشن کمیشن کی معاونت کی ہدایت کریں۔صدر مملکت نے اپنے خط میں کہا کہ ان کی رائے میں اسمبلی تحلیل پر آئین کی شق 224ٹو کے تحت 90روز کے اندر الیکشن کرانا ضروری ہے اور یہ کہ ان کی رائے میں ایگزیکٹو اتھارٹیوں، محکموں نے اس سلسلے میں آئین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی۔ صدر مملکت کی جانب سے وزیر اعظم کو خط لکھنے کی وجوہات واضح ہیں۔ ملک کے آئینی سربراہ کی حیثیت سے ان کا یہ کام ہے کہ کسی مجاز اتھارٹی‘ محکمے یا حکومت کے فیصلے سے آئین شکنی کا خدشہ ہو تو اسے رکوانے کے لئے اپنی ذمہ داری پوری کریں۔ پی ڈی ایم تحریک انصاف کے خلاف تحریک کے دوران چند نکات پر مسلسل زور دیتی رہی ہے۔مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی ان نکات پر ایک دوسرے سے متفق تھیں اس لئے ان نکات کا حوالہ دونوں کے لئے ہے۔یہ کہا گیا کہ عمران خان استعفیٰ دیں تاکہ ملک میں نئے انتخابات کرائے جائیں۔دوسرا نکتہ یہ تھا کہ تحریک انصاف کی پالیسیوں کی وجہ سے ملک میں مہنگائی چھ فیصد سے بڑھ کر 9فیصد ہو گئی۔بتایا گیا کہ لوگوں کا اس مہنگائی میں جینا مشکل ہو چکا تھا۔تیسرا نکتہ یہ تھا کہ عمران خان غیر مقبول ہو چکے ہیں۔اس کے ثبوت میں ان کے دور اقتدار میں ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج پیش کئے جاتے۔تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پی ڈی ایم عمران خان کی مخالفت میں کچھ حقائق کو بالکل نظر انداز کر گئی۔11ماہ گزرنے کے بعد پی ڈی ایم کے سارے اندازے اور قیاس غلط ثابت ہوئے۔عوام نے فیصلہ دیدیا کہ جب تک وہ کسی حکومت کے ساتھ ہیں کسی کو یہ اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ اس حکومت کو تبدیل کر دے۔بھلے تبدیلی کا یہ عمل آئینی اور قانونی ہی کیوں نہ ہو۔ عمران خان کو رخصت کرنے والی پی ڈی ایم نے اقتدار میں آنے کے فوری بعد اپنے رہنمائوں پر قائم مقدمات ختم کرانے شروع کر دیے۔ اس سے اس کی ساکھ کو بڑا دھچکا پہنچا۔پی ٹی آئی نے قومی اسمبلی سے استعفے دیے۔ پی ڈی ایم نے پی ٹی آئی کے ڈیڑھ درجن اراکین کو ساتھ ملا کر اسمبلی میں اپوزیشن بٹھا دی۔اس اقدام کو عوامی سطح پر ناپسندیدہ تصور کیا گیا۔ اگرچہ اس میں بھی آئینی پابندیوں کا خیال رکھا گیا لیکن اس طرح کی روایت کو غیر مناسب سمجھا گیا۔پی ڈی ایم حکومت نے پی ٹی آئی کی جانب سے نئے انتخابات کا مطالبہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔پی ٹی آئی نے اپنے مطالبے میں زور پیدا کرنے کے لئے پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کر دیں۔اس سلسلے میں آئین بہت واضح ہے لیکن حکومت اور اس کے مشیروں نے آئینی موشگافیوں کی تلاش شروع کر دی۔پہلے کہا گیا کہ گورنر انتخابات کی تاریخ دے سکتا ہے‘ پھر گورنروں نے انتخابی تاریخ کے لئے الیکشن کمیشن کو ذمہ دار بتایا۔الیکشن کمیشن نے گورنروں کو مجاز قرار دیا۔صدر مملکت نے اس کھیل کو روکا اور گورنر پنجاب کے انکار کے بعد الیکشن کمیشن کو مشاورت کی دعوت دی۔ الیکشن کمیشن نے مشاورت سے معذرت کر لی۔معاملہ عدالت میں گیا اور معزز سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن اور اس کے معاون اداروں کے سربراہوں کو طلب کر لیا۔سب نے مانا کہ وہ الیکشن کرانے کو تیار ہیں۔30اپریل کو الیکشن کی تاریخ طے کی گئی۔عجیب معاملہ یہ ہوا کہ حکومتی اراکین نے فوراً ذرائع ابلاغ میں یہ تاثر پھیلانا شروع کر دیا کہ معلوم نہیں الیکشن ہوں گے یا نہیں۔یہ معاملہ اس وقت عوامی تشویش کا باعث بن گیا جب گزشتہ ہفتے حکومت نے اپنے پارٹی رہنمائوں اور پھر اتحادیوں کے ساتھ مشاورت کی۔سکیورٹی اداروں کی رائے بھی شامل کی گئی اور اعلان کر دیا گیا کہ الیکشن 30اکتوبر 2023ء کو ہوں گے۔ صدر عارف علوی نے اپنے خط میں سیاسی کارکنوں کی پکڑ دھکڑ کی طرف توجہ دلائی ہے۔تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ اس کے ایک ہزار کے قریب کارکن پولیس گرفتار کر چکی ہے۔کئی کارکنوں کی گمشدگی کا بتایا جا رہا ہے۔مقدمات درج ہو رہے ہیں۔امریکی اراکین کانگرس کی جانب سے تشویش ظاہر کی جا رہی ہے۔انسانی حقوق اور جمہوری آزادیوں کے لئے کام کرنے والے عالمی ادارے حکومت کی کارروائیوں کی مذمت کر رہے ہیں۔ایسے میں سربراہ ریاست کے طور پر صدر مملکت اگر وزیر اعظم کو ان کے فرائض یاد نہ دلائیں تو پوری ریاست عالمی سطح پر ان سرگرمیوں کی مرتکب قرار پا سکتی ہے۔ حکومت کی جانب سے صدر مملکت کے خط پر ردعمل مایوس کن ہے۔وزیر داخلہ ریاست کے آئینی سربراہ کو اپنی اوقات میں رہنے کا کہہ رہے ہیں۔یہ طرز عمل پی ڈی ایم کو سیاسی فائدہ پہنچانے کی بجائے اس کے نقصان کی وجہ بن رہا ہے۔سیاست دان مدبر ہوتا ہے وہ اپنی فکری طاقت سے بحران حل کرتا ہے،پیدا نہیں کرتا۔پاکستان شدید سیاسی اور معاشی ہی نہیں قابل اور مدبر شخصیات کی کمی کے بحران کا بھی شکار نظر آ رہا ہے۔صدر مملکت کی رائے ملک کے جمہوری تشخص اور آئین کی بالادستی کے حوالے سے اہم ہے۔اس کو تسلیم کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*