
„کسی دانا کا قول ہے کہ طاقت، دولت، شہرت اور اختیار (یا اقتدار) انسان کو بدلتے نہیں، بے نقاب کر دیتے ہیں-ترقی یافتہ قوموں میں تو شاید قوانین پر عمل در آمد یا اعلٰی اخلاقی اور سماجی اقدار نے حالات کچھ بدل دیے ہوں لیکن ترقی پذیر دنیا میں سماجی برتری کے حصول کی خواہش کا ایک ہی مقصد ہے اور وہ یہ کہ خود سے کم زور، مفلس، بے نام اور بے اختیار کو جی بھر کر رسوا کرنا۔مانیں یا ناں، ہم ایسے ہی ہیں۔ زیادہ دور کیوں جائیں، کسی سرکاری دفتر کے چپڑاسی، قاصد یا چوکیدار سے بھی جن احباب کو واسطہ پڑ چکا ہے وہ اس کیفیت کا اندازہ کر سکتے ہیں-طاقت اور اختیار کے استعمال کی جو روش ہمارے ہاں رائج ہے، اس کی مثال دنیا میں شاید ہی کہیں ملتی ہو۔ ہماری تو فلمیں بھی انہی موضوعات پر بنتی رہی ہیں، جن میں ہیرو ماضی کے دکھوں اور تلخیوں کو دل میں دبائے، بدلے کی آگ میں جلتا دن رات ایک کر دیتا ہے۔ جہاں اس کا حوصلہ کچھ کم ہوا یا ہیروئن کے چکر میں راستے سے بھٹکا، موٹی عینک لگائے، سلائی مشین پر کپڑے سیتی اس کی ماں دو چار جلی سڑی سنا کر اس کا قبلہ درست کر دیتی ہے۔ اور یوں ایک دن طاقت اور اختیار ملتے ہی فلم کے آخری مناظر میں ہیرو ولن کو چھٹی کا دودھ یاد دلا کر ہنسی خوشی رہنے کے لیے چلا جاتا ہے-ڈنڈا: طاقت، قوت اور اختیار کی علامت ہے اور یہ تینوں صفات اپنی سرشت میں اندھی، بہری اور بے حس تو ہیں لیکن گونگی ہر گز نہیں-اندھی طاقت اظہار کے راستے ٹٹولتی ہے اور بالادستی کا نشہ کسی بھی اخلاقی اور معاشرتی اقدار سے یکسر لا تعلق ہوتا ہے-
Copied….
Leave a Reply