
میں ظلم سہنے کا عادی ہوں-میں ظالم کے خلاف ہتھیار اٹھانا تو کجا احتجاج بھی نہیں کرتا ہوں- اپنی قسمت کو کوستا ہوں ظلم سہتا ہوں اور چپ رہتا ہوں- صدیاں بیت گئیں میں ویسے کا ویسا ہی ہوں- غریب مسکین بیمار لاچار فاقے زدہ جسے دیکھ کر گمان ہوتا ہے کہ اب مرا کہ کل مرا- میرے ارد گرد کے حالات بھی ویسے کے ویسے ہیں جیسے صدیوں پہلے تھے – مجھے حاکموں اور قاضیوں سے جو شکایت صدیوں پہلے تھی آج بھی ہے- میرے حاکم اور قاضی تاریخ کے دھارے کو نہ پہلے دیکھ سکے تھے نہ آج دیکھ رہے ہیں – پہلے بھی وہ زنجیروں اور پابندیوں کے قائل تھے آج بھی وہی قیدوبند اور عقوبت خانے ہیں جہاں طاقتور طبقہ کمزوروں کو تختہ مشق بناتا ہے- ا س وقت کے حاکم اور قاضی کے خلاف بھی کوئی نہیں بولتا تھا اور اب بھی سارے چپ رہتے ہیں اور ظلم سہتے رہتے ہیں-دنیا میں جہاں بھی جبر اور ظلم ہوتا ہے وہاں کبھی تخلیق اور تعمیر پروان نہیں چڑھ سکتی ہے- جہاں غور و فکر اور اظہار رائے کی آزادی نہیں ہوتی وہاں کولہو کے بیل جنم لیتے ہیں اعلیٰ نسل کے گھوڑ ے تیار نہیں ہوسکتے ہیں -دنیا بھر میں ترقی وہاں ہوئی ہے جہاں انسان کو انسان سمجھا جاتا ہو اور ہر ایک کو برابر کا انصاف اور احترام ملتا ہو- اور جہاں انصاف مفقود ہو قاضی رشوت خور ہو ظلم اور جبر ہو وہاں دھرتی بنجر ہو جاتی ہے اور وہاں بچے اندھے پیدا ہوتے ہیں-اور وہاں کے لوگ دائروں کے سفر سے نکل ہی نہیں پاتے ہیں – ہر دفعہ کوئی نہ کوئی نیا فارمولا، کوئی نہ کوئی نیا نظام، کوئی نہ کوئی نیا فلسفہ، کوئی نہ کوئی نیا ڈاکٹرائن آ جاتا ہے اور یوں صدیوں، دہائیوںا وربرسوں کی کوششیں پھر سے صفر پر چلی جاتی ہیں- کولہو کا بیل جس کنویں کے گرد گھومتا ہے اگر کوئی اس میں گر جائے تو ہم اسے باہر نہیں نکلنے دیتے ہم اس کی ٹانگ پکڑ کر دوبارہ کنویں میں واپس کھینچ لیتےہیں-بس اسی اندھے کنویں کو ہم دنیا سمجھ بیٹھے ہیں اور ہر نئے آنے والے حاکم کو ہم ان داتا سمجھ کر اس کے ظلم و ستم اور نت نئے فارمولے کو برداشت کرتے ہیں-کبھی تو یہاں کے لوگوں میں شعور آئے گا اور وہ ظلم سے بغاوت کرینگے اورظالم کے ظلم کی آخیر ہو گی-میں نے جوتشیوں سے سنا ہے کہ ” کہ ظلم دی آخیر ہوندی ٹھاہ”
Leave a Reply